لکھنؤ قتل معاملےمیں ملزم پولس والوں کو بچانے کی کوشش!
ایک طرف پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ گولی بہت قریب سے ماری گئی تو دوسری جانب ایسا بھی محسوس کیا جا رہا ہے جیسے پولس ملزم پولس والوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایپل کمپنی کے ایریا منیجر وویک تیواری کے قتل معاملے میں پوسٹ مارٹم سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ تیواری کو گولی بہت قریب سے ماری گئی تھی۔ دوسری جانب پولس نے اس معاملہ میں وویک کے اہل خانہ سے تحریر لینے کے بجائے چشم دید ثنا خان سے اپنی مرضی کے مطابق تحریر لکھوا لی تھی اور اس تحریر میں ملزم پولس والوں کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
جو معلومات حاصل ہوئیں ہیں ان کے مطابق ثنا سے لی گئی تحریر میں ملزم پولس والوں کا موقع واردات پر ہونے کا ذکر ہی نہیں ہے۔ پولس نے اس معاملہ میں مقدمہ درج کیا ہے اور یہ بھی دعوی کیا ہے کہ ملزم پولس والوں کو گرفتار کیا ہے اور نوکری سے برخاست بھی کر دیا گیا ہے۔ لیکن پولس کے دعوے میں اس وقت کھیل نظر آیا جب ملزم پولس والا تمام پولس والوں کی موجودگی میں کھلے عام اپنی تحریر دینے کی بات کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے آیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے گرفتار کئے جانے کی بات صرف دکھاوا تھی۔
جانکاری کے مطابق اس معاملہ میں پولس نے ثنا کی تحریر ضرور لی ہے لیکن اسے گومتی نگر تھانے میں پولس والوں نے خود لکھا ہے۔ اس تحریر میں اس بات کا ذکر ہے کہ دو پولس والے موقع واردات پر تھے لیکن گولی کس نے چلائی اس بات کا ذکر نہیں ہے۔

جانکاروں کا ماننا ہے کہ پولس کی کوشش ہے کہ چشم دید ثنا کو دباؤ میں لے کر اس کیس کو کمزور کیا جائے۔ اس معاملہ میں ثنا کو مرکزی گواہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
واضح رہے اتوار کو اے ڈی جی لکھنؤ نے وویک تیواری کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی جس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ ان کو24 گھنٹے سیکورٹی دی جائے گی اور ان کے ذریعہ درج کرائی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر ہی ایس آئی ٹی جانچ کروائی جائے گی اور اگر اہل خانہ چاہیں گے تو سی بی آئی جانچ بھی کروائی جائے گی۔
ایس آئی ٹی چیف سجیت پانڈے نے موقع واردات کا جائزہ لیا اور وہاں سے سیمپل وغیرہ جمع کئے۔ انہوں نے بتایا کہ جانچ میں ایسا کچھ سامنے آتا ہے تو سی بی آئی جانچ کے لئے اپیل کی جائے گی۔ ادھر پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تیواری کو گولی بہت قریب سے ماری گئی جبکہ پولس اس معاملہ میں یہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ موت چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Oct 2018, 9:00 AM