روس کے لئے اندرا گاندھی کے دل میں ایک خاص مقام تھا: سونیا

یو پی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے ماسکو میں 10اپریل کو اندرا گاندھی پر منعقد کی گئی ایک نمائش سے خطاب کیا۔ اس خطاب کا متن پیش خدمت ہے۔

تصویر نیشنل ہیرالڈ
تصویر نیشنل ہیرالڈ
user

قومی آوازبیورو

مجھے اس خوبصورت شہر میں 13سال بعد واپس آنے پر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے ۔یہاں اور سینٹ پیٹرس برگ کی بہت سی خوبصورت یادیں ہیں اور سال2005 میں صدر پوتن نے جس مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا تھا، وہ بھی یاد ہے۔

اندرا گاندھی کی صد سالہ تقریبات کےتحت تصویروں کی اس نمائش کا انعقاد کیا گیا ہے جس کا افتتاح آج ہوا ہے اور اس میں ہندوستان کی واحد خاتون وزیر اعظم کی غیر معمولی شخصیت کی زندگی کے ہر پہلو کو شامل کیا گیا ہے ۔ سوویت یونین کی کئی ماؤں نے اپنی بیٹیوں کا نام اندرا گاندھی کے نام پر رکھا ۔ ایسی ایک ماں کو لکھے گئے خط میں اندرا گاندھی نے لکھا تھا ’’اندراتچکا‘ ایک لمبا نام ہے ۔ میرے اپنے گھر والے مجھے اندو کہہ کر بلاتے ہیں اور اس کا مطلب چاند ہے۔ آپ شاید اپنی بیٹی کو اندوتچکا کہہ کر پکار سکتے ہیں جو پکارنے میں آسان ہے‘‘۔

میرا خاندان آ پ کے ملک کے ساتھ اس وقت سے ہےجب1927 میں اندرا گاندھی کے دادا موتی لال نہرو ، ان کے والد جواہر لال نہرو اور ان کی والدہ کملا نہرو ماسکو گئے تھے۔ یہی وہ سفر تھا جس نے جواہر لال نہرو کو اپنی پہلی کتاب ’سوویت رشیا:سم رینڈم اسکیچیز اینڈ امپریشنس ‘ تحریر کرنے کی ترغیب دی ۔ خود اندرا گاندھی نے ماسکو کا اپنا پہلا سفر 1953میں کیا۔ اپنے والد کو لکھے خطوط میں وہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ماسکو اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ ان کے کتنے گہرے رشتے تھے۔

سینٹ پیٹرس برگ، بعد میں لینن گراد، سے انہوں نے لکھا:

’’لینن گراد واقعی ایک خوبصورت شہر ہے (اور یہ شہر ابھی بھی عظیم پیٹر کا ہے) ہرمیٹیج میوزیم میں یوروپی پینٹنگس کا شاندار مجموعہ ہے جس میں چین ، قدیم مصر کے فن کا کلیکشن اور ایک چھوٹا سا حصہ ہندوستان کا بھی ہے‘‘۔

جنوری 1966 میں جب ان کو وزیر اعظم بنے صرف پانچ ماہ ہوئے تھے وہ اپنے پہلےسرکاری دورہ پر ماسکو پہنچیں۔ اس دورہ سے قبل انہوں نے کچھ نایاب چیزیں ہرمیٹیج میوزیم کے لئے بھیجیں جو ابھی بھی وہاں پر ہیں۔یو ایس ایس آر اور بالخصوص روس ان کے دل و دماغ میں خاص مقام رکھتی تھیں۔ ویسے بھی انہوں نے اپنے والد اور دو غیر معمولی شخصیات کے سائے میں پرورش پائی تھی اور وہ شخصیتیں تھیں مہاتما گاندھی جنہوں نے لیو ٹالسٹائے سے ترغیب حاصل کی تھی اور ہندوستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ اور شاعر ربندر ناتھ ٹیگور جنہوں نے اکثر الیکز ینڈر پشکن کی بھی تعریف کی ہے ۔ اندرا گاندھی جو خود بہت مطالعہ کر تی تھیں وہ روسی ادب اور روس کے بڑے مصنفوں سے واقف تھیں ۔ انہوں نے یو ایس ایس آر کے کل 9 دورے کئے جو ان کے 16سالہ دور اقتدار میں کسی بھی کئے گئے دوروں سے زیادہ تھے۔

جواہر لال نہرو کے دور میں یعنی 1950 کے آغاز میں ہندوستان اور سوویت یونین نے خصوصی پارٹنرشپ کی شروعات کی۔ اس پارٹنرشپ نے ہندوستان کی صنعت کاری کے فروغ اور اس کے بنیاد کو مضبوطی فراہم کرنے میں کارآمد ثابت ہوئی اور یہ مضبوط بنیاد آج بھی واضح طور پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس میں اسٹیل پلانٹس، تیل ریفائنریز، انجینئرنگ کمپلیکسز، پاور اسٹیشنز اور فرٹیلائیزر فیکٹریاں شامل ہیں۔ ممبئی میں واقع ’دی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ عالمی شناخت رکھتی ہے جو روس کے تعاون سے ہی شروع ہوا تھا۔ اندرا گاندھی ایک پختہ حکمت عملی کے ساتھ ہند-سوویت تعلقات کو ایک نئی سطح تک لے گئیں۔جب ہندوستان 1971 میں ایک سنگین بحران کا سامنا کر رہا تھا اور آزادیٔ بنگلہ دیش کی جنگ کا دور تھا، اس وقت یو ایس ایس آر نے ہندوستان کے ساتھ جو تعاون کیا اسے اندرا گاندھی کبھی نہیں بھولیں۔ یہ اندرا گاندھی اور روسی لیڈروں کے درمیان بہترین روابط اور بہت کم دیکھی جانے والی دوستی کی مثال ہے۔

اندرا گاندھی امن اور بقائے باہم کی بااثر اور کبھی مدھم نہ ہونے والی عالمی آواز رہیں۔ جب اکتوبر 1984 میں ان کا قتل ہوا، اس سے ٹھیک پہلے نیوکلیائی اسلحوں کو ختم کرنے سے متعلق زوردار اپیل کے لیے انھوں نے پانچ دیگر ممالک کے سربراہان کو جوائن کیا تھا۔ دنیا میں کہیں بھی ناانصافی ہو یا عوام کا استحصال ہو تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھانے میں جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ وہ ہمیشہ کثیر جہتی انسٹی ٹیوشنز میں پختہ یقین رکھتی تھیں اور اس میں کسی بھی طرح کی سربراہی کے خلاف تھیں چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو۔ ہندوستان کے اندر انھوں نے سوسائٹی کے غریب اور کمزور طبقہ کے ساتھ ایک نایاب تال میل کو ساجھا کیا تھا۔ وہ خود کو ان طبقات کے حقوق و اختیارات کا محافظ تصور کرتی تھیں اور ان کی امیدوں و خواہشات کی تکمیل کا راستہ نکالتی تھیں۔ ان کی قیادت میں سبز انقلاب نے ہندوستان کو چاول و گیہوں کے معاملے میں خود اعتماد بنایا اور قحط کے کسی بھی خطرہ کو معدوم کر دیا۔ یہ ان کی قیادت اور عزم مصمم تھی جس نے ہندوستان کو طاقتور ملک کے طور پر آگے بڑھایا۔ یہ جاننا آپ کے لیے نہایت دلچسپ ہوگا کہ ان کی کئی دوستوں میں سے ایک ویلنٹینا تیریشکووا تھیں جن سے ان کی پہلی ملاقات 1963 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان قریبی روابط قائم ہوئے۔ اندرا گاندھی کے انتقال پر دنیا کی اس پہلی خاتون خلاباز نے خلا میں چکر لگاتے ہوئے دنیا کی دوسری خاتون وزیر اعظم کو خراج تحسین پیش کیا تھا، اس کا اقتباس دیکھیے:

’’وہ بہت برا دن تھا جب اندرا گاندھی کا بے رحمی سے قتل کیے جانے کی حیران کرنے والی خبر دنیا کو ملی، اور ہمارے ملک کی کئی خواتین نے ’سوویت ویمنس کمیٹی‘ میں ہمیں لکھا کہ اپنی ناراضگی اور گہرے غم کا اظہار کریں اور خاتون و ہندوستان کے تمام لوگوں کے تئیں مخلصانہ تعزیت پیش کریں۔‘‘

اندرا گاندھی کثیر جہتی شخصیت تھیں اور ان کی کئی طرح کی دلچسپیاں بھی تھیں۔ انھوں نے بطور قریبی دوست اکیڈمکس، سائنٹس، مصنّفین، شاعر، مصوری، موسیقار وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد کا تعلق آپ کے ملک سے ہے۔ سیاست ان کی ضرورت تھی لیکن قدرت سے وہ جذباتی لگاؤ رکھتی تھیں۔ پوری دنیا میں وہ پہلی خاتون سیاسی لیڈر تھیں جنھوں نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدام کیے تھے۔ وہ ان دو گورنمنٹس ہیڈس میں سے ایک تھیں جنھوں نے ’انسانی ماحولیات‘ کے موضوع پر پہلے یونائٹیڈ نیشنز کانفرنس سے خطاب کیا تھا جو کہ جون 1972 میں اسٹاک ہوم میں منعقد ہوا تھا۔ یہاں ان کی تقریر انتہائی جوشیلی تھی، جو موجودہ وقت میں بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی کہ اس وقت تھی۔ یہاں تک کہ جب وہ سیاسی معاملوں میں مصروف رہتی تھیں تب بھی سائبیرین کرین (سائبیریا کا پرندہ) کے بارے میں فکر مند رہیں۔ ان کے قتل سے کچھ ہی دنوں پہلے ہندوستان اور یو ایس ایس آر نے ایک معاہدہ پر دستخط کیا تھا جو مہاجر پرندوں کے تحفظ کے تعلق سے تھا۔ میں شکرگزار ہوں ان کی حساسیت کا، اس وقت جنگلوں میں موجود شیر کی 60 فیصد آبادی تنہا ہندوستان میں ہے۔ وہ قدرت کی محافظ بھی تھیں اور ہندوستان کی غیر معمولی تہذیبی وراثت کو بچانے کا مادّہ بھی رکھتی تھیں، ٹھیک اسی طرح جیسے یہ دونوں ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہوں۔

اس لیے ہندوستان سے باہر ماسکو ہی پہلا مناسب مقام ہے جہاں تصویر کی نمائش رکھی گئی۔ اس بہترین مہمان نوازی کا بھی میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ یہ نمائش داستان کہہ رہی ہے ایک بہادر، پرکشش اور کرشمائی لیڈر کی جس نے رخصت ہونے سے پہلے نہ صرف اپنے ملک اور ہندوستان-یو ایس ایس آر تعلقات پر نہ مٹنے والی چھاپ چھوڑی بلکہ عالمی سطح پر بھی نشان چھوڑا۔ اسی میراث کی وجہ سے ہندوستان اور روس کے درمیان ایک بہترین رشتہ بنا ہوا ہے، اور اس وراثت کو صدر پوتن اور ہندوستان کے وزرائے اعظم مل کر مضبوطی فراہم کر رہے ہیں۔

شکریہ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */