امت مسلمہ کو ’دو عید‘ مبارک

ایک مرتبہ پھر حلا ل عید کو لے کر تنازعہ ہوا اور امت کو دو عید کرنی پڑیں اس کے لئے اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ صرف اور صرف علماءحضرات ہیں

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

جس کا ڈر تھا آخر وہی ہوا۔ علماء کرام کے درمیان ہلال عید سے متعلق اختلافات ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آ گئے اور امت مسلمہ دو دِن یعنی جمعہ اور ہفتہ کے روز عید منانے کے لیے مجبور ہوئی۔ اتر پردیش میں اعظم گڑھ اور دوسری چند ایک جگہوں پر عید کی نماز آج پڑھی گئی تو گجرات میں بھی کچھ مقامات پر عید آج ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ رمضان میں چاند دیکھے جانے سے متعلق جو تنازعہ پیدا ہوا تھا اس کے بعد عید کے چاند کا اعلان کرنے میں محتاط قدم اٹھانے کی جگہ علماء اور کچھ رویت ہلال کمیٹیوں نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا اور کئی مقامات سے تو تقریباً آٹھ بجے ہی عید ہفتہ کے روز منائے جانے کا اعلان کر دیا گیا۔ حالانکہ گجرات اور ممبئی جیسی ریاستوں میں چاند دیکھے جانے کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعہ رات کے تقریباً 10 بجے تک ہر خاص و عام تک پہنچ گئیں اور پتہ چل گیا کہ وہاں جمعہ کو عید کا اعلان ہو گیا ہے۔ لیکن دہلی میں تو جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے مغرب کی نماز کے کچھ دیر بعد ہی چاند نہ ہونے کا اعلان کر دیا، اور ان کا یہ اعلان کرنا تھا کہ کئی رویت ہلال کمیٹیوں نے چاند نہ دیکھے جانے کا پرچہ جاری کر دیا یہ وہی احمد بخاری ہیں جنہوں نے رمضان کے چاند دیکھے جانے کا اعلان رات دس بجے کے بعد کیا تھا اور لوگوں کو تراویح پڑھنے کے تعلق سے پریشانی ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ انہوں نے غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کیا ۔ بہار سے امارت شرعیہ، ادارہ شرعیہ اور خانقاہ مجبیہ وغیرہ اداروں نے مشترکہ طور پر عید ہفتہ کے روز منائے جانے کی بات کہی، لیکن ہنگامہ تو اس وقت برپا شروع ہوا جب اتر پردیش کے کچھ علاقوں میں چاند کی شہادت کی خبریں عام ہوئیں اور کئی لوگوں نے تصدیق کی تو اسے درست پایا۔

آج جب اتر پردیش، گجرات اورمہاراشٹر کی کچھ عیدگاہوں میں عید کی نماز ادا کی گئی اور ہندوستان کی کئی ریاستوں میں چاند دیکھے جانے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو لوگ اس تذبذب میں پڑ گئے کہ روزہ رکھا جائے یا توڑ دیا جائے۔ دہلی کے شاہین باغ میں تو کئی لوگوں نے لکھنو، مراد آباد اور اعظم گڑھ میں چاند دیکھے جانے کی خبر سننے کے بعد سحری بھی نہیں کھائی اور جن لوگوں کو اس کا پتہ دن میں چلا انھوں نے روزہ توڑ دیا۔ کچھ ایسا ہی حال بہار کے پٹنہ میں بھی دیکھنے کو ملا۔ ایک ہی گھر میں کچھ لوگ روزہ سے تھے اور کچھ نے روزہ توڑ دیا تھا۔ روزہ توڑنے والوں میں اکثریت اہل حدیث طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور دہلی میں تو نمازِ جمعہ کے بعد اہل حدیث طبقہ کی مساجد سے باضابطہ روزہ توڑنے کے لیے اعلان بھی کیا گیا۔ یہاں قابل غور ہے کہ 14 جون کو مرکزی اہل حدیث رویت ہلال کمیٹی نے پریس ریلیز جاری کیا جس میں واضح لفظوں میں لکھا کہ "ملک کے کسی بھی حصے میں چاند کی رویت کی مصدقہ و مستند خبر موصول نہ ہونے کے پیش نظر مرکزی اہل حدیث رویت ہلال کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 16 جون 2018 بروز ہفتہ شوال کی پہلی تاریخ ہوگی اور اسی دن عید منائی جائے گی" اور جمعہ یعنی 15 جون کو انھوں نے یہ اعلانیہ جاری کیا کہ "جن حضرات کو باوثوق ذرائع سے رویت کی خبر ہو انھیں 15 جون کو روزہ نہ رکھنے کا اختیار ہے۔ اور جنھیں باوثوق ذرائع سے اطلاع موصول نہ ہوئی ہو انھیں چاہیے کہ 15 جون کو روزہ رکھیں۔" اب جبکہ جماعت اہل حدیث خود کوئی اسٹینڈ نہیں لے رہی ہے اور فیصلہ عام لوگوں پر چھوڑ رہی ہے تو انتشار پھیلنا لازمی ہے۔ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے روزہ توڑے۔

اس معاملے میں ایسے روزہ دار جو جماعت اسلامی، دیوبند یا امارت شرعیہ جیسے اداروں کے اعلان پر عمل کرتے ہیں، انھوں نے روزہ رکھنے کا فیصلہ لیا ہے اور 'قومی آواز' نے کئی لوگوں سے بات کی جنھوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک روزہ نہیں توڑیں گے جب تک علماء کرام کے ذریعہ ایسا کرنے کا حکم نہیں ہوتا۔ 'قومی آواز' نے جب اس سلسلے میں ناظم امارت شریہ، پھلواری شریف (بہار) سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ "کچھ علاقوں میں چاند دیکھے جانے کی خبر تاخیر سے ملی اور اگر اس شہادت پر کسی کو اعتبار ہے تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے لیکن بہار میں چاند دیکھے جانے کی شہادت نہیں ہے اور کوئی فتنہ پیدا نہ ہو اس لیے ہمیں چاہیے کہ بلاوجہ اس معاملہ کو طول نہ دیا جائے۔" انھوں نے مزید کہا کہ "رویت ہلال کے کچھ شرائط ہوتے ہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے عید ہفتہ کے روز منائے جانے کا فیصلہ لیا گیا ہے اور ملک کی بڑی تعداد اسی پر متفق ہے۔"

'قومی آواز' نے اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے ایک رکن سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ اتر پردیش میں ابھی تک رویت ہلال کی تصدیق سے متعلق جتنی بھی خبریں میری نظر سے گزری ہیں وہ اہل حدیث طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے کچھ لوگ جو ان سےنظریاتی طور پر اختلاف رکھتے ہیں وہ ان پر اعتبار بھی نہیں کر رہے۔ گویا کہ اہل حدیث طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمعہ کو روزہ توڑتی ہوئی نظر آئی۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ اہل حدیث طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے عید کی نماز ایک ساتھ ہفتہ کے روز پڑھنے کے عزم کا اظہار کیامرکزی جمعیتہ اہل حدیث نے کمال کا بیان جاری کیا اور کہا کہ روزہ رکھیں تو بھی کوئی بات نہیں اور روزہ نہ رکھنے کا بھی اختیار ہے بس دونوں صورتوں میں اللہ جل شانہ سے ہی رشتہ رکھیں۔

سائنس کے اس جدید دور میں کب تک ہمارا موازنہ جہلا سے کیا جاتا رہے گا اور کیوں ہمارے علماء اس تعلق سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہ ہو اور عوام تک صحیح بات پہنچے اس کے لئے علماء کو سر جوڑکر بیٹھنا ہو گا۔ بات اتنی زیادہ خراب ہو گئی ہے کہ اب تنقید کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Jun 2018, 4:54 PM