’اگر ہر آدمی میرے موہنا کی طرح خوش اخلاق ہوتا تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی‘، ڈاکٹر منموہن کے پاکستانی ہم جماعت کا بیان

محمد اشرف کے بیٹے محمد زماں کہتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو میرے والد مجھے موہنا (منموہن) کے بارے میں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ جب وہ وزیر اعظم بنے تو والد نے کہا ’اوئے اپنا موہنا ہندوستان دا وزیر ہو گیا‘

<div class="paragraphs"><p>منموہن سنگھ کی فائل تصویر،&nbsp;<a href="https://x.com/siddaramaiah">@siddaramaiah</a></p></div>

منموہن سنگھ کی فائل تصویر،@siddaramaiah

user

قومی آواز بیورو

’’اگر ہر آدمی میرے موہنا کی طرح خوش اخلاق ہوتا تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے 81 سالہ محمد اشرف (جن کے دانت نہیں تھے) قہقہہ لگاتے ہیں۔ محمد اشرف دراصل ہندوستان کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ہم جماعت اور دوست تھے۔ 2012 میں دانیال قبلائی خان کا ایک مضمون رسالہ ’پک‘ میں شائع ہوا تھا اسی میں محمد اشرف کے منموہن سنگھ سے متعلق خیالات پیش کیے گئے ہیں۔ اس مضمون کو کامران رحمت نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر شیئر کیا ہے، ساتھ ہی ایک تصویر بھی ہے جس میں ایک رجسٹر پر منموہن سنگھ نے اردو میں اپنا نام لکھا ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ منموہن سنگھ 1932 میں چکوال کے مضافات میں موجود گاؤں گاہ بگل (جو پاکستان میں ہے) میں پیدا ہوئے تھے۔ گاہ اسلام آباد سے تقریباً 80 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ مضمون میں لکھا گیا ہے کہ ’’یہ گاؤں 8 سال قبل تک نامعلوم تھا، جب منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو اسے شہرت ملی۔‘‘ ظاہر ہے مضمون 2012 میں شائع ہوا تو 8 سال پہلے، یعنی 2004 کا تذکرہ تھا جب منموہن سنگھ پہلی بار ہندوستان کے وزیر اعظم بنے تھے۔ آئیے نیچے دیکھتے ہیں کہ اس مضمون میں مزید کیا کچھ لکھا ہوا تھا۔


’’اشرف کے بیٹے محمد زماں کہتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو میرے والد مجھے موہنا (منموہن سنگھ) کے بارے میں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ جب وہ وزیر اعظم بنے تو والد نے کہا ’اوئے اپنا موہنا ہندوستان دا وزیر ہو گیا‘ (ہمارا موہنا ہندوستان کا وزیر اعظم بن گیا)، ’ہم آخر کار نقشے پر آ گئے۔‘ پھر جشن منایا گیا اور ہر کوئی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتا نظر آیا۔

محمد زماں نے بتایا کہ اس کے والد اشرف کہتے تھے— ہم 5 میل پیدل چل کر اسکول جاتے تھے، ہم چوتھی جماعت تک ساتھ تھے۔ میں فیل ہو گیا لیکن اس نے پڑھنا جاری رکھا۔ وہ بہت محنتی طالب علم تھا، جبکہ میں اتنا ذہین نہیں تھا۔ میں اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔ وہ موم بتی کی روشنی میں پڑھتا تھا اور امتحانات کی تیاری کرتا تھا۔ کبھی کبھی میرا ہوم ورک بھی کر دیتا تھا! مجھے اپنے امتحان کا دن یاد ہے، ہم ناشتہ کیے بغیر اسکول کے لیے جلدی روانہ ہوئے تھے... اور پیپر کے بعد جب ہم گھر واپس آ رہے تھے تو ہمیں ایک بیری کا درخت ملا۔ موہنا نے کچھ پتھر اٹھا کر بیر پر پھینکے اور میں نے انہیں زمین سے اٹھا کر کھا لیا۔ اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے مجھے مارنا شروع کر دیا کہ ’وتے اسّی سوت-دے نے، تے بیرے تُسی کھاندے ہو‘ (میں پتھر پھینکتا ہوں اور تم ساری بیریاں کھاتے ہو)۔ میں موہنا کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ درخت ابھی تک ہمارے گاؤں میں ہے۔ وہ سڑک بنانے کے لیے اسے کاٹ رہے تھے، لیکن میں نے انھیں بتایا کہ یہ درخت منموہن سنگھ کا ہے۔


منموہن کے ایک دیگر دوست اور گاؤں کے ڈپٹی میئر راجہ محمد علی کا 2 سال قبل انتقال ہو گیا تھا، لیکن انھیں دہلی میں 6 دہائیوں کے بعد 2008 میں اپنے بچپن کے دوست سے ملاقات نصیب ہوئی۔ اشرف نے مسکراتے ہوئے بتایا ’اس نے موہنا کے لیے جوتے اور شالوں کے تحائف لیے۔ میں نے اسے مشہور چکوالی ’راوری‘ بھیجا۔ انہوں نے موہنا کو پاکستان آنے اور گاہ دیکھنے کی دعوت دی، لیکن پھر ہم نے ہندوستان میں کچھ دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں سنا جس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا تھا۔‘

خراب تعلقات کے باوجود مسٹر سنگھ اپنے اسکول کے ساتھیوں اور اسکول کو نہیں بھولے تھے۔ اس نے اسکول کے تزئین و آرائش کے لیے فنڈز کا بندوبست کیا اور صدر مشرف کے دور میں اسکول کا نام ان کے نام پر رکھا جانا تھا۔ تزئین و آرائش کی گئی لیکن کچھ نامعلوم سیاسی وجوہات کی بنا پر اسکول کا اصل نام اب بھی برقرار ہے (یعنی نام نہیں بدلا جا سکا)۔ منموہن سنگھ کا اسکول ریکارڈ اب بھی ہیڈ ماسٹر کی کیبنٹ میں محفوظ ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔