حلال چھٹیوں کا بڑھ رہا رجحان، اسلامی عقیدے کی پابند خواتین کے لیے کئی ممالک میں خصوصی انتظامات
گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس کے مطابق 2022 میں حلال سیاحتی کاروبار 220 ملین ڈالر کا ہو چکا ہے، کچھ کمپنیاں حلال ہالی ڈیز میں مہارت رکھتی ہیں جبکہ دیگر اسے ایک متبادل کی شکل میں اختیار کر رہی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
کچھ لوگوں کو حلال ہالی ڈیز یعنی حلال چھٹیوں کے بارے میں معلوم نہیں، لیکن بیرون ممالک میں حلال چھٹیوں کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ کئی ممالک میں ہیں جہاں کے ہوٹلوں میں ایسی مسلم خواتین کے لیے خاص انتظام کیا گیا ہے جو اسلامی عقیدے کی پابند ہیں اور اسلامی دائرے میں رہتے ہوئے چھٹیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں۔
حلال ہالی ڈیز کے تعلق سے بی بی سی ہندی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کچھ مسلم خواتین کا تجربات بیان کیے گئے ہیں۔ برطانوی انفلوئنسر زہرہ روز کا حلال ہالی ڈیز کے بارے میں کہنا ہے کہ "مجھے دھوپ میں رہنا بہت پسند ہے، مجھے وٹامن ڈی پسند ہے اور پورے سال پرسکون رہنا پسند ہے۔ اس لیے میں واقعی میں ہر جگہ جانے کا لطف لیتی ہوں، جہاں تنہائی ہو یا چھٹیاں گزاری جا سکتی ہیں۔" ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ وہ سیر و سیاحت پسند کرتی ہیں لیکن اپنے اسلامی عقیدے کے تئیں وفادار بھی رہنا چاہتی ہیں۔
زہرہ بتاتی ہیں کہ وہ 30 سے زائد حلال چھٹیاں منا چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "میرے لیے حلال ہالی ڈیز اور عام ہالی ڈے میں سب سے بڑا فرق پرائیویسی کا ہے۔" ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حلال ہالی ڈیز میں انھیں حلال کھانا آسانی سے مل جاتا ہے جو ان کے لیے بہت ضروری ہے۔
دراصل حلال ہالی ڈیز کے لیے ایسے مقامات مقرر ہیں جہاں مسلمان اپنے عقیدے اور رسوم سے سمجھوتہ کیے بغیر چھٹیاں منا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ مسلم ممالک میں حلال ہالی ڈیز کو لے کر زیادہ پریشانی نہیں ہے، لیکن مغربی اور یوروپی ممالک میں چھٹیاں منانا کئی بار مسلمانوں، خصوصاً خواتین کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن اب مغربی ممالک میں کچھ ایسے ہوٹلز ہیں جو حلال ہالی ڈیز کے لیے جانے جاتے ہیں، لیکن اس کے لیے وہ زیادہ پیسے وصول کرتے ہیں۔
بہرحال، بی بی سی کی رپورٹ میں 36 سالہ ہیزر سوزوگلو عادیگزائی کا حلال ہالی ڈیز سے متعلق تجربہ بیان کیا گیا ہے جو دلچسپ ہے۔ عادیگزائی تین بچوں کی ماں ہیں اور استنبول میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھیں ترکی میں حلال چھٹیوں کے لیے جگہ تلاش کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن جب بھی فیملی غیر اسلامی ممالک کا سفر کرتا ہے تو انھیں بہت ساری ریسرچ اور منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں "حال ہی میں ہم میسیڈونیا اور کوسوو گئے تھے۔ ہم نے اپنے ہوٹل میں ناشتہ کیا اور دوپہر کے کھانے کے لیے ہم روایتی مقامات پر گئے ہجاں بغیر شراب کے کھانا پیش کیا جاتا تھا۔"
عادیگزائی پنج وقتہ نمازی ہیں اور اسلامی اقدار پر اچھی طرح عمل کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "حلال ہوٹلوں میں وہ نماز کے لیے چٹائی دستیاب کراتے ہیں۔ اگر ہم عام ہوٹلوں میں رکنے جا رہے ہیں تو میں اپنے ساتھ نماز کے لیے چٹائی لے جاتی ہوں۔" وہ مزید کہتی ہیں "میں ہوٹلوں مین کم کپڑے پہنے لوگوں کو نہیں دیکھنا چاہتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایسے لوگوں کے ساتھ رہیں جو ہمارے عقیدے اور تہذیب پر عمل کرتے ہیں۔ ہم انھیں سمندری ساحلوں پر نہیں لے جانا چاہتے جہاں لوگ ننگے ہو کر دھوپ سینکتے ہیں۔"
قابل ذکر ہے کہ گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس کے مطابق 2022 میں حلال سیاحتی کاروبار 220 ملین ڈالر کا ہو چکا ہے۔ کچھ کمپنیاں حلال ہالی ڈیز میں مہارت رکھتی ہیں جبکہ دیگر اسے ایک متبادل کی شکل میں اختیار کر رہی ہیں۔ مالدیپ مغربی ممالک میں اپنے خاص ہوٹلوں کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن یہاں اب دنیا بھر سے حلال سیاحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مالدیپ کے وزیر سیاحت ڈاکٹر عبداللہ موسوم کہتے ہیں کہ "مالدیپ ایک مسلم ملک ہے اور ہمارے پاس پہلے سے ہی مسلمانوں کے موافق سیاحت ہے اور یہ شعبہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔" ڈاکٹر موسوم کا کہنا ہے کہ سبھی ہوٹل کا ایک چوتھائی حصہ اب خاص طبقہ کو خیال میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے یا مقامی گھریلو سیاحت کے لیے علیحدہ رکھا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "کئی ریسورٹس میں کمرے کا الاٹمنٹ، کمرے کا ڈیزائن اور کھانے کے معاملے میں بھی مسلم موافق ماحول تیار کیا گیا ہے۔"
قابل ذکر یہ بھی ہے کہ 2023 گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس میں بیشتر مسلم ممالک کا دبدبہ ہے۔ اول اور دوئم مقام پر تو انڈونیشیا اور ملیشیا قابض ہیں۔ ٹاپ-20 ممالک کی بات کریں تو اس میں صرف دو غیر مسلم ملک سنگاپور (گیارہواں مقام) اور برطانیہ (بیسواں مقام) نے جگہ بنائی ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ لندن میں فائیو اسٹار لینڈ مارک ہوٹل 1899 میں کھلا اور اب یہ حلال گوشت فراہم کرتا ہے۔ اس ہوٹل میں ملازمین کو مشرق وسطیٰ کی مذہبی اور تہذیبی سمجھ کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ یہاں مشرق وسطیٰ کے سیلس ڈائریکٹر میگڈی رستم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ہمارے پاس الکحل والے مشروب کے ساتھ بغیر الکحل والے مشروب بھی ہیں۔ ہمارے بار میں آپ ایک غیر الکحل کاک ٹیل لے سکتے ہیں جو بہت مقبول ہے۔" وہ مزید بتاتے ہیں کہ "ہوٹل میں داخلے کے لیے دو دروازے ہیں۔ شمال میں ایک دروازہ ذاتی استعمال کے لیے ہے۔ بیشتر مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی فیملی، خصوصاً خواتین خود کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا پسند نہیں کرتیں، اس لیے وہ شمالی دروازے سے داخل ہوتی ہیں۔ وہاں ایک خاص لفٹ بھی ہے جو انھیں سیدھے کمرے تک لے جاتی ہے تاکہ انھیں کوئی دیکھ نہ سکے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔