گوا: دو ایم ایل اے ٹوٹنے کے بعد بھی کانگریس کو حکومت سازی کا بھروسہ

گوا کانگریس صدر گریش چوڈنکر کا کہنا ہے کہ پارٹی کے دو اراکین اسمبلی کا استعفیٰ بی جے پی قومی صدر امت شاہ کی غلط کوششوں کا نتیجہ ہے، اور اس کے باوجود کانگریس حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی ریاست میں حکومت کا کام پوری طرح ٹھپ پڑا ہو، اور ریاست کا وزیر اعلیٰ اپنی خراب صحت کی وجہ سے کام کرنے کی حالت میں نہ ہو۔ ایسے ماحول میں اگر اپوزیشن پارٹی کے اراکین اسمبلی استعفیٰ دے دیں تو پھر آپ کیا کہیں گے! یہ سب کچھ ہوا ہے گوا میں، اور اس کے ’سوتردھار‘ کوئی اور نہیں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ ہیں۔

سبھی جانتے ہیں کہ گوا میں بی جے پی کی منوہر پاریکر حکومت پر اقتدار گنوانے کا خدشہ بنا ہوا ہے اور خبر آئی ہے کہ کانگریس کو دو اراکین اسمبلی دیانند سوپتے اور سبھاش شیروڈکر نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ دونوں نے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے اور بغیر کسی دباؤ کے یہ استعفیٰ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گوا کانگریس صدر گریش چوڈنکر نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’یہ سیدھے طور پر ایم ایل اے توڑنے کی پالیسی ہے۔ گوا میں بی جے پی کی اقلیتی حکومت کو بچانے کے لیے امت شاہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔‘‘۔

غور طلب ہے کہ وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر دہلی ایمس میں علاج چھوڑ کر جب سے گوا واپس لوٹے ہیں تب سے گوا میں بی جے پی کافی پریشان نظر آنے لگی ہے۔ اقتدار گنوانے کا خوف بی جے پی خیمہ میں صاف نظر آ رہا ہے۔ گریش چوڈنکر کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی کو معلوم ہے کہ گوا میں ان کا اقتدار جانے والا ہے اور بس کچھ ہی گنے چنے ہوئے دن بچے ہیں۔ بات صرف دو تین دنوں کی ہی رہ گئی ہے اس لیے امت شاہ نے اراکین اسمبلی کو توڑنے کا ہتھکنڈا اختیار کیا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ریاست میں حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھ رہی ہے اور ایسے میں اپوزیشن اراکین کا استعفیٰ دینا اور اسمبلی اسپیکر کے ذریعہ فوراً اسے منظور کر لینا بی جے پی گھبراہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔

ان اراکین اسمبلی کا استعفیٰ قبول کرتے ہوئے اسمبلی اسپیکر پرمود ساونت نے کہا کہ ’’مجھے دو کانگریس اراکین اسمبلی دیانند سوپتے اور سبھاش شروڈکر کا استعفیٰ نامہ ملا ہے۔ انھوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ ایسا اپنی مرضی اور بغیر کسی دباؤ کے کر رہے ہیں۔ میں نے استعفیٰ منظور کر لیا ہے۔ بقیہ عمل مکمل کر اس کی کاپی ایوان کے سبھی اراکین، راج بھون اور الیکشن کمیشن کو دستیاب کرا دی جائے گی۔‘‘

دو اراکین اسمبلی کے استعفیٰ کے بعد 40 اراکین والی اسمبلی کی صلاحیت اب صرف 38 رہ گئی ہے اور ایسے میں اکثریت کے لیے صرف 20 اراکین ہی چاہیے۔ اسمبلی میں اب کانگریس اور بی جے پی کے 14-14 اراکین، ایم جی پی اور گوا فارورڈ کے 3-3 اراکین کے علاوہ تین آزاد اراکین اسمبلی ہیں۔

ان استعفوں سے پہلے تک کانگریس 16 اراکین کے ساتھ گوا اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی تھی، لیکن اب اس کے اور بی جے پی کے اراکین کی تعداد برابر ہو گئی ہے۔ گوا کانگریس صدر کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی کے ذریعہ ایسا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انھوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر بار آئینی ضابطوں کو طاق پر رکھا ہے۔ انتخاب کے بعد کانگریس سب سے بڑی پارٹی تھی، لیکن گورنر نے کانگریس کی جگہ بی جے پی کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اور اب جب کہ ریاست میں کام پوری طرح ٹھپ ہے تو بی جے پی نے اکثریت ثابت کرنے کی جگہ کانگریس اراکین اسمبلی کو توڑ کر ان کا استعفیٰ کرا دیا۔‘‘

ان دونوں اراکین اسمبلی کے استعفیٰ کے باوجود کانگریس کو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کی حکومت بن جائے گی۔ کانگریس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اپنے 14 اراکین اسمبلی کے علاوہ ایم جی پی کے 3 اور این سی پی کے ایک رکن اسمبلی کی حمایت ہے۔ ساتھ ہی اسے بھروسہ ہے کہ طاقت کا جب مظاہرہ ہوگا تو کم از کم دو آزاد اراکین اسمبلی اس کی حمایت کریں گے۔

گریش چوڈنکر کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی اور امت شاہ زیادہ دنوں تک گوا کے لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ گوا میں اب بی جے پی حکومت بننا تو دور، بی جے پی اراکین اسمبلی کو اپنے انتخابی حلقہ میں جانے کی بھی دقت ہونے والی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ لوگوں کی ناراضگی اپنے شباب پر ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔