یوگی حکومت میں انکاونٹرس تشدد کی علامت بن گئے ہیں

اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اب تک ہوئے تقریباً 2100 تصادم میں زیادہ تر کی کہانیاں تقریباً ایک جیسی ہیں جن میں جانچ کرنے پر نئی بات سامنے آ جاتی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

لکھنو: منگل کو حقوق انسانی کمیشن کی ایک ٹیم مظفر نگر کے گاوں باغو والی میں ندیم انکاونٹر کی جانچ کرنے پہنچی۔ 32 سالہ ندیم کو 8 ستمبر کو ککرولی پولس نے ایک تصادم میں مار ڈالا تھا۔ اس کی موت کے ٹھیک ایک سال بعد حقوق انسانی کمیشن کی ایک ٹیم اس تصادم کی جانچ کر رہی ہے۔ ندیم کے گاوں کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تصادم فرضی تھا۔ ندیم 8 سال بعد جیل سے چھوٹ کر آیا تھا اور اپنی زمین فروخت کر کاروبار کرنے کی کوشش میں تھا۔

گزشتہ سال 8 ستمبر کو ہوئے اس تصادم سے قبل ندیم پر مظفر نگر پولس کی حراست سے فرار ہونے کا الزام تھا جس کے بعد اس پر راتوں رات 10 ہزار روپے انعام کا اعلان ہو گیا اور اس کے بعد ککرولی پولس نے اسے تصادم میں مار دیا۔ اس تصادم کی کہانی میں کچھ اور بھی چیزیں ہیں جسے حقوق انسانی کمیشن کی ٹیم کو مقامی لوگوں نے بتایا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ندیم 3 دن تک پولس حراست میں ہی تھا (ریکارڈ میں نہیں)، اسے چھڑانے کے لیے اس کی بہن نے اپنے زیورات گروی رکھ دیے۔ بیہڑا گاوں کے ایک مخبر سے پولس نے اس تصادم میں گواہ بننے کے لیے کہا جس کی بات افشا ہو گئی۔ ساتھ ہی تصادم کرنے والا داروغہ کچھ ہی دنوں میں پروموشن پا گیا۔

حقوق انسانی کمیشن کی یہ ٹیم اس سے اگلے دن جان محمد کی کھتولی میں ہوئے تصادم کی جانچ کرنے بھی پہنچی۔ جان محمد کو 16 ستمبر (گزشتہ سال) میں ایک مبینہ تصادم میں مار ڈالا گیا تھا۔ دوگھٹ باغپت کا رہنے والا جان محمد عرف جانو پر 12 ہزار روپے کا انعام تھا۔ جانو کی تصادم کی تصویر یو پی پولس کی بہادری کی علامت بن گئی۔ جان محمد کی موت گاڑی چلاتے ہوئے ہوئی تھی جب کہ اس کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ وہ گاڑی چلانا ہی نہیں جانتا تھا۔

اس کے علاوہ حقوق انسانی کمیشن نے ایک اور معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے جو 3 اکتوبر کو سرزد ہوا تھا۔ اس دن نوئیڈا پولس نے 50 ہزار روپے کے انعامی سمت گوجر کو مار ڈالا تھا۔ مارے گئے سمت کی کوئی کرائم ہسٹری نہیں تھی۔ اس کے والد کا الزام تھا کہ ان کے گاوں میں سمت نام کا ایک دوسرا بدمعاش تھا۔ ایک ہی طرح کا نام ہونے کی وجہ سے ان کے بیٹے کو مار دیا گیا۔ اس کے بعد اس معاملے نے طول پکڑ لیا۔ گھر والوں نے کئی دن تک لاش کا آخری رسوم ادا نہیں کیا۔ الگ الگ گاوں میں غصہ پھیلنے لگا اور گوجر پنچایت ہونے لگی۔ تمام بڑے گوجر لیڈر ایک پلیٹ فارم پر آئے اور یو پی پولس کی بڑی بدنامی ہوئی۔ اس لڑائی کو ترجیحی بنیاد پر لڑنے والے سماجوادی پارٹی لیڈر اتل پردھان کے مطابق یہ سیدھے طور پر پولس کے ذریعہ کیا گیا قتل تھا جس میں قاتل بچ نہیں پائیں گے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

ایک اور کہانی جان لیجیے۔ کیرانہ کا فرقان سالوں سے جیل میں بند تھا۔ اچانک وہ ضمانت پر باہر آ گیا اور پھر اسے انکاونٹر میں مار دیا گیا۔ فرقان کی بیوی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کے پاس تو پیسے ہی نہیں تھے، یہ کیسے باہر آ گیا!

اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اب تک ہوئے تقریباً 2100 تصادم میں زیادہ تر کی کہانیاں ایسی ہی ہیں جن میں جانچ کرنے پر نئی بات سامنے آ جاتی ہے۔ اب تک نہ تصادموں میں تقریباً 65 جرائم پیشہ مارے گئے ہیں، 550 زخمی ہوئے ہیں، حالانکہ 4 پولس اہلکار بھی اس میں شہید ہوئے ہیں جب کہ 334 زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران 700 سے زائد بدمعاشوں کے پیر میں گولی لگی ہے اور 300 سے زائد پولس اہلکاروں کے ہاتھوں کو چھوتی ہوئی گولی نکل گئی ہے۔ میرٹھ زون میں سب سے زیادہ اعلیٰ ذات کے لوگ ہیں جہاں 400 دنوں میں 40 بدمعاشوں کو تصادم میں مار گرایا گیا ہے۔ ادھر ایک بار پھر تصادم کے معاملوں میں تیزی آئی ہے۔ میرٹھ میں 10 دنوں میں (16 ستمبر سے 27 ستمبر تک) 22 تصادم ہوئے ہیں جن میں 2 بدمعاش مارے گئے ہیں اور 40 گرفتار ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا دعویٰ ہے کہ ایک بھی تصادم فرضی نہیں ہے۔

لکھنو میں وویک تیواری کی پولس اہلکاروں کے ذریعہ کیے گئے قتل کے بعد یہ بحث بہت تیز ہو گیاہے کہ کیا یو پی پولس بے لگام ہو گئی ہے اور بات بات پر بندوق چلا دیتی ہے! کیا یہ سوال نفسیات کا ہے اور اسے سیدھی گولی چلانے سے خوف نہیں لگتا!

سماجوادی پارٹی کے ترجمان رولی تیواری مشرا ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "صوبے کے مکھیا نے کہا ہے کہ تم کو کسی کے جرائم پیشہ ہونے پر شک ہے تو ٹھوکو۔ اور پولس یہی تو کر رہی ہے، وہ ٹھوک رہی ہے۔" رولی کہتی ہیں کہ "ریاست میں بری طرح سے عدم تحفظ کا ماحول ہے۔ جن لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا وہ بھی اب پچھتا رہے ہیں۔ پولس کچھ بھی الزام لگا کر کسی کا انکاونٹر کر سکتی ہے۔ یو پی میں پولس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، وہ بس شکار تلاش کرتی ہے۔"

رولی 'قومی آواز' سے بات چیت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "وردی کی عزت ختم ہو رہی ہے، خاکی پہننا بہت فخر کی بات ہے لیکن وہ کھلونا بن گئی ہے۔ پولس کو دیکھ کر عام آدمی کو سیکورٹی کا احساس پیدا ہونا چاہیے لیکن وہ پولس کو دیکھ کر ڈر رہی ہے۔ اب پولس خود جرائم پیشوں جیسا سلوک کرنے لگی ہے۔"

خاص بات یہ ہے کہ یو پی پولس میں انکاونٹر کی تعداد بڑھانے کو لے کر ایک دوڑ سی معلوم پڑتی ہے۔ 2017 میں آگرہ زون کے اول رہنے کے بعد اب میرٹھ زون کی سبقت ہے۔ تصادم کے عام اصول ریاضیات کی حمایت نہیں کرتے جیسے کہ انکاونٹر اچانک سے ہونے والا واقعہ ہے، یہ منصوبہ بنا کر نہیں ہوتا۔ جرائم معاملات کے ماہر سہارنپور کے وکیل سجاد احمد کہتے ہیں کہ "انکاونٹر کا ابتدائی داستان یہ ہے کہ پولس کو کسی جرائم سے متعلق واقعہ کی اطلاع ملتی ہے، پولس موقع پر پہنچتی ہے جہاں بدمعاشوں سے آمنا سامنا ہو جاتا ہے۔ پولس بدمعاشوں کو للکارتی ہے، بدمعاش پولس پر فائرنگ کرتے ہیں، پولس اپنی حفاظت میں گولی چلاتی ہے اور اس میں کسی کو بھی گولی لگ سکتی ہے۔ اس لیے انکاونٹر منصوبہ بنا کر نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے آناً فاناً میں تیار ہونا پڑتا ہے۔"

پھر کیا وجہ ہے کہ کسی ایک زون میں اچانک سے انکاونٹر ہونے لگتے ہیں جب کہ دوسرے درجنوں زون پرامن رہتے ہیں۔ حالانکہ جرائم پیشے وہاں بھی موجود ہیں۔ سجاد کہتے ہیں کہ "زون سطح یا ضلع سطح پر مہم چلائی جاتی ہے اور بدمعاشوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کی مہم ممبئی انڈر ورلڈ کو تباہ کرنے کے لیے چلائی گئی۔ کئی بار یہ مہم ریاستی سطح پر بھی چلائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے پولس شکار تلاش کرتی ہے اور ان مہموں کی کامیابی سے افسروں کو انعام و اکرام دونوں میسر ہوتا ہے۔"

ایک درجن سے زیادہ انکاونٹر کرنے والے ایک پولس افسر نام نہ شائع کرنے کی شرط پر 'قومی آواز' کو بتاتے ہیں کہ "آپ بدمعاش کے مارے جانے کے طریقے پر زیادہ غور نہ کریں بلکہ یہ دیکھیں کہ ہم نے جرائم پیشوں کو ہی مارا ہے، بے گناہ کو ہم کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ صرف پیشہ ور جرائم پیشوں کو گولی کا جواب گولی سے دے رہے ہیں۔"

سماجوادی پارٹی لیڈر اتل پردھان کے مطابق پولس قانون کی حفاظت کے لیے ہے لیکن وہ خود قانون توڑ رہی ہے۔ 3 فروری کو غازی آباد میں جتندر یادو نام کے ایک جِم انسٹرکٹر کو یو پی پولس کے ایک داروغہ نے گولی مار دی اور اسے انکاونٹر کا نام دے دیا جب کہ وہ داروغہ وجے درشن جِم انسٹرکٹر سے دشمنی رکھتا تھا۔ اسے لگا کہ یہ آسان طریقہ ہے اس سے دشمنی نکالنے کا۔ یو پی میں پولس بے لگام ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔

یو پی پولس سے ڈرنے کی اپنی اپنی وجہ ہے۔ مثلاً گزشتہ دنوں دہلی میں علی گڑھ انکاونٹر میں مارے گئے نوشاد اور مستقیم کے گھر والوں کی آواز بلند کرنے پہنچے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر مشکور احمد عثمانی اور سابق صدر فیض الحسن کے خلاف ہی مقدمہ درج کر دیا گیا۔ مشکور احمد کے مطابق علی گڑھ پولس نے صرف واہ واہی لوٹنے کے لیے دو غریب مزدوروں کو فرضی تصادم میں مار دیا۔ اس کے لیے باقاعدہ میڈیا بلائی گئی اور انکاونٹر کا ویڈیو بنوایا گیا۔ جب گھر والوں اور کچھ مقامی لوگوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تو انھیں مقدمے میں پھنسانے کی دھمکی دی گئی۔ اس سے قبل کیرانہ میں بھی ایسا ہوا ہے۔

میرٹھ زون میں بلراج بھاٹی، شمیم، سجیت بھاٹی، منصور عرف پہلوان، اسلم بُنتا، بیبندر چودھری، سونو کمار، ستیہ ویر ستا، امت، فرقان، ریحان، اکبر، وِکاس جاٹ، رمیش نانو جیسے بدمعاش ان تصادم میں مارے گئے ہیں۔ کئی بار ایک لاکھ کے انعامی بدمعاش پولس سے سانٹھ گانٹھ کر جیل پہنچ گئے۔ ان میں بجنور کے آدتیہ جاٹ کو لے کر پورے زون کے کرائم برانچ کو معطل کر دیا گیا تھا۔

اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے سرمایہ کاروں کی نظر میں ریاست کی شبیہ خراب ہو رہی ہے۔ اس سے قبل آر ایل ڈی کے جنرل سکریٹری جینت چودھری بھی یو پی میں لگاتار فرضی تصادم پر ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق یو پی میں پولس کو 'لائسنس ٹو کِل' یعنی قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

ان سبھی انکاونٹر کو لے کر ایک سوال اور بھی ہے جسے سابق آئی پی ایس ایس. آر. داراپوری نے اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان انکاونٹرس میں زیادہ تر دلتوں، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کو گولی ماری گئی ہے لیکن لکھنو میں وویک تیواری کی موت نے بہت سی بند آنکھوں کو کھول دیا ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ انکاونٹر کے بعد مہلوک کے گھر والوں کو پولس اطلاع نہیں دیتی۔ کیرانہ کے فرقان اور اعظم گڑھ کے جے ہند یادو کے گھر والوں کو وہاٹس ایپ سے ان کے مرنے کی جانکاری ملی تھی۔ جے ہند کو تو 21 گولیاں ماری گئی تھیں جب کہ فرقان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

اس سال فروری کے بعد انکاونٹر میں کچھ کمی آ گئی تھی لیکن ستمبر میں ایک بار پھر تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ میرٹھ کے ایک مقامی صحافی کہتے ہیں کہ "آج کل انکاونٹر کا کنکشن تبادلے سے بھی ہوتا ہے۔ جب بھی کسی افسر کو تبادلے کی بھنک ملتی ہے وہ انکاونٹر کر دیتا ہے جس سے اس کی کرسی نہیں ہلتی۔ ظاہر ہے کہ تبادلہ ایکسپریس یعنی تبادلے کا موسم آنے والا ہے اور یہی سبب ہے کہ اب جرائم پیشوں کی بھی بولی لگ رہی ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Sep 2018, 8:06 PM