معصوموں کی عید کا مطلب

شادمان نے ڈھائی سال پہلے اسکول چھوڑ دیا تھا، تب وہ چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا، اس کے والد شریف کپڑے کی پھیری لگانے کا کام کرتے ہیں، وہ چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

اتوار کی شام پرویز احمد (34) کا چھت کا پنکھا اچانک خراب ہو گیا۔ افطار کا وقت نزدیک تھا لہذا وہ فوراً مستری کے پاس گئے۔ پہلی نظر میں کنڈینسر خراب ہونے کا شک تھا اس لئے مستری یوسف عباسی (39) نے اپنی دکان پر کام کر رہے شادمان (13) کو بھیج دیا۔ پسینے سےشرابور شادمان نے کافی محنت کی ،لیکن پنکھا ٹھیک نہ ہو سکا۔ تھک ہار کر وہ پنکھا اتار کر دکان پر لے آیا، وہاں اسے خوب ڈانٹ پڑی۔

شادمان نے بتایا کہ ڈھائی سال پہلے اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا، تب وہ چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا۔ اس کے والد شریف (40) کپڑے کی پھیری لگانے کا کام کرتے ہیں، وہ چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہے۔ آس پاس میں بھی کوئی دسویں تک نہیں پڑھا۔ شادمان کے مطابق ’’میں ڈھائی سال سے کام سیکھ رہا ہوں ،مستری مجھے ایک روپیہ بھی نہیں دیتا، کبھی کبھی یاعید آنے پر 50 روپے دیتا ہے۔ دکان پر 4 اور بھی چیلے ہیں اور سبھی کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

شادمان کے بارے میں بات کرنے پر اس کے چچاسرتاج (24)کا کہنا ہے ’’میں بہت شوق سے پڑھ رہا تھا۔ ابو مزدوری کرتے تھے ، مجھے پڑھا رہے تھے۔لیکن وہ پڑھائی کا خرچ نہیں اٹھا پا رہے تھے اور آگے کی پڑھائی اور مہنگی ہو رہی تھی۔ آخر کار دسویں کی پڑھائی کے بعد میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور کپڑے کی پھیری لگانے لگا۔‘‘ سرتاج کا کہنا ہے ’’میرا حال دیکھ کر شادمان کی پڑھائی چھڑوا دی گئی۔اسے پنکھا ٹھیک کرنے کی دکان پر بھیجا گیا تاکہ وہ جلد اپنے پیروں پر کھڑاہو جائے اور گھر چلانے میں مدد کرے۔ ‘‘

محکمہ لیبر کے پاس اس بات کے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں کہ شادمان جیسے کتنے بچے غریبی سے جدوجہد کے بعد ماں باپ کا سہارا بننے کے لئے اپنا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ اتر پردیش کے معاون لیبر کمشنر شمیم اختر نے کہا ’’حکومت ایسے بچوں کے مستقبل کو لے کر فکرمند ہے ، اسی لئے ایک سرکاری پورٹل پنسل بنایا گیا ہے جہاں آن لائن چائلڈ لیبر کی شکایت کر سکتے ہیں، ہم مجرم کے خلاف سخت کارروائی کریں گے ۔ اطفال مزدوری سے آزاد کرائے گئے بچوں کی پڑھائی لکھائی کا خیال رکھیں گے۔ 14 سال سے کم عمر کے بچے اگر کہیں کام کرتے ہیں تو یہ قانوناً جرم ہے اور بچے کے باپ اور دکان مالک کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

لیکن قانونی کارروائی کا خوف زمین پر نظر نہیں آتا۔ مقامی بس اڈوں، سنیما ہال کے باہر، چائے کی دکانوں اور دوسرے گنجان علاقوں میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے ننھے اور معصوم کاندھے آپ کو نظر آ جائیں گے۔ لوگوں کے پاس قانون سے بچ نکلنے کے بے شمار راستے ہیں۔ مثلاً سپریم کورٹ نے ایک عرضی پر سماعت کے بعد اسکول سے آنے کے بعد 14 سال سے کم عمر کے ان بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ کام کرنے اور ان کا ہاتھ بٹانے کی رعایت دے دی گئی ۔

میرانپور پولس اسٹیشن کے سامنے پھلوں کی ٹھیلی لگانے والے یامین (50) کا بیٹا سہیل (13) 7ویں کلاس میں پڑھتاہے۔ پہلے وہ اپنے والد کی مدد کرتا تھا اب خود کیلے بیچتا ہے۔ یامین کہتے ہیں ’’ابھی اسکول کی چھٹی چل رہی ہے۔ خود مختار ہونا سیکھ رہے ہیں۔پڑھ لکھ کر نوکری ملے گی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ویسے بھی سرکار خود بھی پکوڑے پکواتی ہے۔‘‘

دن بھر لوکل بسوں میں ان نابالغ بچوں کی بھیڑ نظر آتی ہے جو کچھ نہ کچھ بیچتے رہتے ہیں۔ہربس اسٹینڈ پر تعداد کم از کم 50 ہوتی ہے۔ کس بس میں کون سی ٹیم جائے گی اس پر آپس میں تال میل ہوتا ہے۔ پاس کے دکان دار بچوں کو سامان بیچنے کے لئے دیتے ہیں جن میں ان کاحصہ ہوتاہے۔ بس میں جوس بیچنے والا جانسٹھ کا رہائشی ندیم(14) کہتا ہے،’’میں اب 200 روپے روز کما رہا ہوں، سردی میں مونگ پھلی بیچتا تھا تب زیادہ کما لیتا تھا۔ پاپا کچھ نہیں کرتے، گھر پر رہتے ہیں۔ ہم تین بھائی ہیں ،میں سب سے چھوٹا ہوں۔ سارے بھائی کام کرتے ہیں ، پیسہ نہ ہو تو کہیں عزت نہیں ہوتی۔ ‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

ایسے بچے زیادہ تر مسلمان ہیں ۔ سلمان (15) کہتے ہیں ’’لوگ پوچھتے ہیں کہ تم پڑھتے کیوں نہیں! میں کہتا ہوں، پیٹ بھریں یا پڑھیں! میری خالہ کے لڑکے نے ایم اے کیا ہے پھر بھی کپڑے کی پھیری لگا رہا ہے ، جب پھیری ہی لگانی ہے تو پڑھ کر کیا ملے گا، جبکہ پڑھائی میں تو اور پیسہ خرچ ہوگا۔ ‘‘

قطب پور روڈ پر موٹر سائیکل مکینک لیاقت اپنے بیٹے شانو کو موٹر سائیکل ٹھیک کرنا سکھا رہے ہیں، شانو نے حال ہی میں 12ویں کا امتحان پاس کیا ہے۔ لیاقت کہتے ہیں ’’حکومتوں کا مسلمانوں کے تئیں رویہ جانبدرانہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے پڑھائی چھوڑوا رہے ہیں تاکہ نوکری نہ ملے تو کم از کم خالی ہاتھ تو رہے۔‘‘

سلائی کی دکانوں پر بھی بچوں کی بھیڑ ہے اور کہانی ایک جیسی ہے۔ معاشی پریشانی سے دو چار ہیں اور جلدی پیسے کمانا چاہتے ہیں۔ اگر خاندان کا بچہ 50 روپے بھی کما لیتا ہے تو بقول شکیلہ (47) یہ بہت بڑا سہارا ہوتا ہے، ایک وقت کی سبزی تو آ ہی جاتی ہے۔

طالب (15) سڑک کے کنارے پھل بیچتا ہے، اکثر مسافر ہی اس سے گاڑی روک کر پھل خریدتے ہیں۔ طالب کہتا ہے’’میں یہ تو نہیں چاہتا کہ اس گاڑی میں بیٹھا ہوا بچہ میری جگہ آ جائے ،لیکن یہ ضرور چاہتا ہوں کہ میں اس کی جگہ چلا جاؤں۔‘‘

میرانپور شاہی جامع مسجد کے امام مفتی ارشد قاسمی کہتے ہیں ’’مسلمانوں نے فضول خرچی کا بوچھ بڑھا لیا ہے۔ شادی بیاہ ،کھانے پینے ، اچھےکپڑوں اور بڑےگھر کے لئے قرض لیا جا رہا ہے۔ انہیں اخراجات میں کمی کرنی چاہئے اور سادگی سے رہنا چاہئے، لیکن اپنے بچوں کو ضرور پڑھانا چاہئے۔‘‘

ان بچوں کی بہتری کے لئے مقامی سیاسی رہنماؤں نے کبھی کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی ، اس بات کو لے کر لوگوں میں ناراضگی ہے۔ طالب (15) کے والد ادریس کہتے ہیں ’’وہ جو قوم کی ٹھیکیداری لئے پھرتے ہیں وہ جواب دیں کہ انہوں نے قوم کے لئے کیا کیاہے۔‘‘سوال ان تنظیموں سے بھی ہے جو مسلمانوں کے نام پر خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

سماجوادی پارٹی کے رہنما بابر انصاری کہتے ہیں ’’کیا محکمہ لیبر یا اس سے اورپر بیٹھے حکام نہیں جانتے کہ یہ بچے کون ہیں، لیکن وہ اس کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اقلیتی فلاح و بہبود کے کام کاغذ پر تو ہو رہے ہیں لیکن زمین پر نہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔