بہار کا نوادہ ضلع بھی فرقہ پرستی کی آگ میں جَل اٹھا، انٹرنیٹ خدمات بند

اورنگ آباد، بھاگلپور، سمستی پور اور مونگیر وغیرہ علاقوں کے بعد نوادہ میں توڑ پھوڑ اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات نے پولس انتظامیہ پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بھاگلپور، سمستی پور، اورنگ آباد، مونگیر اور ارریہ کے بعد بہار کا نوادہ ضلع بھی فرقہ پرستی کی زد میں آ گیا ہے۔ یہاں جمعہ کی صبح دو گروپ کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد نے شدت اختیار کر لی اور شر پسند عناصر نے کئی دکانوں کو نذر آتش کر دیا۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ پولس کو ہوائی فائرنگ کرنی پڑی اور حالات کو قابو میں لانے کے لیے انٹرنیٹ خدمات کو بھی بند کرنا پڑ گیا۔ لگاتار ہو رہے فرقہ وارانہ واردات نے نتیش کمار کی این ڈی اے حکومت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ چھ دنوں سے بہار جَل رہا ہے لیکن جنتا دل یو اور بی جے پی کی خاموشی مایوس کن ہے۔

ذرائع کے مطابق حالات جمعرات کی شب سے ہی سنگین نظر آ رہے تھے جب کچھ شرپسند عناصر نے ہنومان کی مورتی کو نقصان پہنچایا تھا۔ آج صبح ہنومان کی مورتی کو توڑے جانے سے مشتعل لوگوں نے اقلیتی طبقہ کے خلاف نعرے لگائے اور کئی دکانوں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے وہاں موجود گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ بھی کی۔ تشدد کی خبر ملنے کے بعد وہاں پہنچی پولس نے احتجاجیوں کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے جس کے سبب ہوائی فائرنگ کرنی پڑی۔ اس وقت پولس اور انتظامیہ کے کئی اعلیٰ افسران موقع پر پہنچ گئے ہیں اور علاقے کے سبھی مذہبی مقامات کی سیکورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی طرح کی غلطی فہمی نہ پھیلے، اس لیے علاقے کے انٹرنیٹ خدمات کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب نوادہ بائی پاس پر ہنومان جی کی مورتی توڑنے کا واقعہ ہوا تو پولس نے فوری قدم کیوں نہیں اٹھایا اور سیکورٹی سخت کیوں نہیں کی۔ آج جب کہ جمعہ ہے اور اقلیتی طبقہ مسجدوں میں نماز کی ادائیگی کے لیے بڑی تعداد میں پہنچنے والے ہیں تو علی الصبح اس طرح کا تشدد تشویشناک ہے۔ حالانکہ پولس کا کہنا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں اور بڑی تعداد میں فورس تعینات ہے، لیکن کسی انہونی کا اندیشہ بنا ہوا ہے۔ جس طرح سے شرپسند عناصر نے پٹنہ-رانچی شاہراہ نمبر 31 کو جام کیا اور حملہ و جوابی حملہ کے طور پر دو فرقہ کے درمیان پتھر بازی ہوئی، اس نے بہار میں کشیدہ حالات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔ اس تشدد میں مشتعل بھیڑ نے میڈیا کو بھی نہیں بخشا اور کئی صحافیوں کے کیمرے توڑ ڈالے۔

قابل ذکر ہے کہ نوادہ وہ حلقہ ہے جہاں سے ممبر پارلیمنٹ بی جے پی کے شعلہ بیان لیڈر گری راج سنگھ ہیں۔ ایسی صورت میں جب کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی نے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ رام نومی کا جلوس جس راستے سے نکالنے کی اجازت انتظامیہ کے ذریعہ ملے اسی راستے سے نکالی جائے، بی جے پی لیڈروں، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کارکنان کے ذریعہ ممنوعہ راستوں سے مسلح جلوس نکالنا حیران کرنے والا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس بار بہار کو آگ کی نذر کرنے کے لیے رام نومی جلوس کو منتخب کیا گیا تھا اور یہی سبب ہے کہ رام نومی ختم ہوئے ہفتہ بھر ہونے کو ہے لیکن بہار اب بھی جَل رہا ہے اور شر پسند عناصر کسی نہ کسی طرح سے فرقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Mar 2018, 12:41 PM