شام: گولان کی پہاڑیوں کا تنازعہ، امریکی موقف میں حیران کن تبدیلی

گولان کی پہاڑیاں شام اور اسرائیل کے درمیان تنازعے اور کشیدگی کا علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس متنازعہ علاقے پر اسرائیل نے سن 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔

گولان کی پہاڑیاں
گولان کی پہاڑیاں
user

ڈی. ڈبلیو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات 21 مارچ کو کہا ہے کہ 52 برسوں کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ امریکا گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی مکمل جغرافیائی حاکمیت کو تسلیم کر لے۔ ٹرمپ کے مطابق یہ علاقہ اسرائیلی ریاست کی سیکورٹی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اُدھر اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کے اعلان کو پورِم کے مقدس تہوار پر رونما ہونے والا معجزہ قرار دیا ہے۔

گولان ہائٹس کے معاملے کو ایک دن قبل اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ زیر بحث لائے تھے اور ٹرمپ کے اعلان کو اُس کا تسلسل خیال کیا گیا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی حکام کے مطابق اس مناسبت سے واشنگٹن سے باضابطہ اعلان امکاناً نیتن یاہو کے اگلے ہفتے کے دوران شروع ہونے والے دورہٴ امریکا کے موقع پر ہو سکتا ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسرائیل میں ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی پوزیشن کو یقینی طور پر تقویت حاصل ہو گی۔ اسرائیلی پارلیمانی انتخابات کا انعقاد 9 اپریل کو ہو گا۔

دوسری جانب امریکی صدر کے بیان کی کئی عالمی لیڈروں نے مذمت کی ہے۔ روس نے اسے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا ہے۔ اس دوران شامی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گولان کی پہاڑیوں سے متعلق سابقہ موقف کو اچانک تبدیل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس امریکی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صیہونی قبضے کے ساتھ ساتھ جارحانہ اقدامات کی حمایت کا تسلسل ہے۔ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ نے بھی شامی موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس امریکی فیصلے کو بین الاقوامی قانون کی حدود سے تجاوز قرار دیا ہے۔

گولان کی پہاڑیوں کو قرب و جوار کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہی پہاڑیاں کے چشموں سے بہنے والا پانی دریائے اردن کے ساتھ بحیرہ گلیلی یا جھیل طبریا کو بھرتا ہے۔ یہ جھیل اس سارے علاقے میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ سمندر نما جھیل خطے کی ستر فیصد آبادی کے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اس میں سے اسرائیل کی کل آبادی کا چالیس فیصد بھی مستفید ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */