آسام شہریت معاملہ: پھر سماعت شروع نہیں ہوئی، مقدمہ چیف جسٹس کے حوالہ

مولانا سید ارشد مدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پرکہا کہ عدالت معاملہ کی حساسیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس پر نہ صرف جلد سماعت کرے گی بلکہ حقائق وشواہد کی بنیاد پر ایک مثبت فیصلہ دے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ میں گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر مقدمہ پر سماعت آج بھی نہیں شروع ہوسکی، جسٹس ارون مشرا اور جسٹس عبدالنظیر کی دورکنی بینچ کے سامنے جب یہ مقدمہ(2 SLP نمبر 20944/18۔SLP نمبر 1 21959/18) پیش ہوا تو جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ اندراجے سنگھ اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی بحث کرنے کے لے پیش ہوئے تو انہوں نے فاضل ججوں سے کہا کہ آپ کے پچھلے آرڈر کے مطابق ہم نے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ اس مقدمہ کو جسٹس رنجن گگوئی والی بینچ کو بھیج دیا جائے کیونکہ وہ اس طرح کے مقدمات پہلے سے ہی دیکھ رہی ہے لیکن اب چونکہ چیف جسٹس نے یہ مقدمہ دوربارہ آپ کے پاس بھیج دیاہے اس لئے ہماری گزارش ہے کہ اس پر فوری سماعت شروع کردی جائے ، اس پر سرکار کی طرف سے پیروری کرنے والے ایڈیشنل سالسٹر جنرل تشارمہتانے اعتراض کیا اور مقدمہ کو جسٹس گگوئی بینچ کے حوالہ کرنے پر اس دلیل کے ساتھ اصرار کیا کہ آسام کے معاملات وہی بینچ دیکھ رہی ہے ، جمعیۃعلماء ہند کی وکیل اندراجے سنگھ نے اس پر بینچ سے کہا کہ آسام کے حالات اور سہولت کے مطابق اس پر جلد سماعت ہونی چاہئے لہذا اب اس کی سماعت آپ ہی کریں ، فریقین کے دلائل سننے کے بعد ججوں نے کہا کہ ہم براہ راست اس مقدمہ کو جسٹس گگوئی بینچ کو نہیں بھیج سکتے بلکہ اس کااختیار تنہاچیف جسٹس کو ہے کیونکہ وہ ماسٹر آف روسٹر ہیں ، چنانچہ بینچ نے آڈر جاری کیا کہ اس مقدمہ کو خود چیف جسٹس دیکھیں اور اگر مناسب سمجھیں تو وہ اسے جسٹس گگوئی بینچ کے حوالہ کردیں ۔

اس طرح جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کی تماتر کوشش کے باوجود مقدمہ پر سماعت شروع نہیں ہوسکی، دوسرے ایڈیشنل سالسٹر جنرل نے آج جس طرح مقدمہ کو جسٹس گگوئی بینچ کے حوالہ کرنے کی وکالت کی اس سے کہیں نہ کہیں اشارہ ضرور ملتا ہے کہ سرکار اس مقدمہ پر سماعت نہیں چاہتی ہے اور کسی نہ کسی حوالہ سے اسے لٹکائے رکھنا چاہتی ہے جبکہ پچھلی سماعت میں عدالت نے این آرسی کی حتمی فہرست کے لئے آخری تاریخ 30؍جولائی مقررکردی تھی، اس مقدمہ میں گوہاٹی ہائی کورٹ کے 2؍مئی 2017کے اس فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اگر فارن ٹریبونل سے کسی شخص کو غیر ملکی قراردیا جاچکا ہے تو اس کے پورے خاندان کو غیر ملکی مانا جائیگا اور ان کے خلاف فارن ٹریبونل میں مقدمہ بھی قائم کیا جائے گا ،۔

قابل ذکر ہے کہ اس فیصلہ کی آڑ لیتے ہوئے این آرسی اسٹیٹ کوآرڈینٹر پرتیک ہزیلا نے 2؍مئی 2018کو خاموشی سے ایک نوٹس جاری کرکے افسران کو ہدایت کی تھی کہ جن کو ٹریبونل نے غیر ملکی قراردیدیا ہے ان کے اہل خانہ یعنی بھائی بہن اور گھر کے دیگر افرادکو بھی غیر ملکی سمجھاجائے اور این آرسی دستاویزات ہونے کے باوجود انہیں اس وقت تک این آرسی میں شامل نہ کیا جائے جب تک فارن ٹریبونل انہیں کلیرنس نہیں دیدیتا ، واضح رہے کہ ٹربیونل کے ذریعہ تقریباً 92ہزار لوگوں کو غیر ملکی زمرہ میں ڈالاجاچکا ہے اور اگر اسٹیٹ کوآڈینٹر کی ہدایت پر عمل ہوتا ہے تو آسام میں ایک اندازے کہ مطابق تقریبا ًگیارہ سے بارہ لاکھ حقیقی شہری غیر ملکی قراردیئے جاسکتے ہیں۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پرامید ہوں کہ عدالت معاملہ کی حساسیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس پر نہ صرف جلد سماعت کرے گی بلکہ حقائق وشواہد کی بنیادپر ایک مثبت فیصلہ دے گی، کیوں کہ اس فیصلہ سے لاکھوں شہریوں کی زندگیاں جڑی ہوئی ہیں اور جو سپریم کورٹ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ، حال میں کچھ رپورٹیں آئیں ہیں جن میں این آرسی کے عمل میں گڑبڑیوں کی بات کہی گئی ہے ۔

مولانا مدنی نے این آرسی عمل میں گڑبڑی کی ان خبروں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اس عمل میں شامل ہیں اور جن کو شہریوں کی شناخت کی اہم ذمہ داری دی گئی ہیں ان کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ این آر سی کی تیاری میں انصاف اور ایمانداری سے کام لیں اور اس پورے عمل میں شفافیت کا مظاہرہ کریں ۔اگر ایسا نہ ہو اتو ان حالات میں ان کا کیا ہوگا ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اور وہ کہاں جائیں گے ؟۔

مولانا مدنی نے کہا کہ خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو آسام میں ایک انسانی بحران پیداہوسکتا ہے جس سے نمٹنا کوئی آسان کام نہ ہوگا انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹربیونل نے جن لوگوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگائے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد بنگلہ بولنے والے غیر مسلموں کی بھی ہے چنانچہ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ کسی مذہب ، ذات یا برادری کا نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے اس لئے اسے انسانیت کی بنیادپر ہی حل کیا جانا چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔