آگرہ: سنجلی کے گنہگار اب بھی پکڑ سے باہر، ناراض دلت کل سڑکوں پر کریں گے مظاہرہ

آگرہ میں دن دہاڑے 18 دسمبر کو سرزد واقعہ نے اس تاریخی شہر کے چہرے پر سیاہی ڈال دی ہے۔ بیچ سڑک پر ایک لڑکی کو پٹرول ڈال کر زندہ جلا دیا گیا اور لوگ تماشائی بنے دیکھتے رہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کا نظامِ قانون بری طرح زوال پذیر ہے۔ اس کا ثبوت 18 دسمبر کی دوپہر آگرہ میں پیش آئے دل دہلا دینے والا وہ واقعہ ہے جس میں ایک نابالغ لڑکی کو سڑک پر پٹرول ڈال کر زندہ جلا دیا گیا۔ مرنے سے پہلے اس لڑکی نے بتایا کہ ہیلمٹ پہنے دو لڑکوں نے اس کے اوپر پٹرول ڈال کر لائٹر سے آگ لگا دی۔

حادثہ منگل یعنی 18 دسمبر کی دوپہر تقریباً دو بجے کا ہے۔ اس دن آگرہ کے للاؤ گاؤں کی رہنے والی 16 سال کی سنجلی اپنے اسکول سے سائیکل سے گھر لوٹ رہی تھی۔ اسکول گاؤں سے ڈیڑھ میل دور ہے۔ تبھی راستے میں سیاہ رنگ کی بائک پر ہیلمٹ لگائے دو لڑکے آئے اور ان میں سے ایک نے اس کے اوپر بوتل میں بھرا پٹرول ڈال دیا۔ 16 سال کی اس معصوم نے اپنی سائیکل کو تیز دوڑا کر موت سے لڑنے کی بے انتہا کوشش کی اور تقریباً 100 میٹر بھاگ پائی ہوگی کہ ان درندوں نے لائٹر جلا کر اس کے اوپر پھینک دیا۔

سنجلی آگ میں جل کر تڑپتی رہی، لیکن 50-40 زندہ لوگوں کی مردہ بھیڑ اسے جھلستا دیکھتی رہی۔ ایک بس ڈرائیور نے بس میں لگے آگ بجھانے والی مشین سے آگ بجھانے کی کوشش ضرور کی لیکن آگ جب تک بجھی اس وقت تک وہ معصوم پوری طرح سے جھلس چکی تھی۔ یہ حادثہ آگرہ ہیڈ کوارٹر سے 14 کلو میٹر دور کا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اسی دن ریاست کے ڈی جی پی او پی سنگھ شہر میں ہی موجود تھے۔ لیکن اس کے باوجود سنجلی کی موت کے پانچ دن بعد تک پولس کے پاس نہ ہی کوئی سراغ ہے اور نہ ہی کوئی چشم دید۔ آگرہ کے پولس کپتان امت پاٹھک جانچ کے صحیح سمت میں ہونے اور جلد ہی انکشاف کی بات کہہ رہے ہیں۔ ہفتہ کو فورنسک ٹیم نے جائے حادثہ کا جائزہ لے کر کرائم سین کو سمجھنے کی کوشش کی۔ سنجلی کے اسکول سے ملے سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی صاف ہو گیا ہے کہ اس کے سائیکل لے کر نکلنے کے بعد دو موٹر سائیکلوں سے کچھ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا۔

اتر پردیش کا نظام قانون اس وقت بدتر حالت میں ہے۔ نہ صرف آگرہ بلکہ پورا ملک اس واقعہ سے حیرت زدہ ہے۔ متاثرہ کے گھر پہنچنے والے سب سے پہلے لیڈر بھیم آرمی کے سپریمو چندر شیکھر نے کہا کہ اس واقعہ میں صرف ایک لڑکی نہیں بلکہ ہزاروں سنجلی جلا کر مار دی گئی ہے۔ اب وہ اسکول جانے کی ہمت نہیں کر پائیں گی۔ گزشتہ پانچ دنوں سے گاؤں کی کوئی لڑکی اسکول نہیں گئی ہے۔ گاؤں کی لڑکیوں نے طے کیا ہے کہ جب تک سنجلی کے قاتل پکڑے نہیں جائیں گے وہ اسکول نہیں جائیں گی۔

واقعہ کے بعد ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما سنجلی کے گاؤں لالؤ پہنچے تھے اور اس کے گھر والوں کو پانچ لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن سنجلی کے گھر والوں نے یہ معاوضہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ مرکزی وزیر رام شنکر کٹھیریا کو بھی گاؤں میں جانے پر زبردست احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ گاؤں میں ان کے سامنے ہی مودی-یوگی مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔

سنجلی کے گھر والے حکومت کے رویے سے سخت ناراض ہیں۔ اس کے والد ہریندر کا کہنا ہے کہ حکومت سارا معاملہ سنجلی کے بھائی کے سر ڈالنا چاہتی ہے جو پہلے ہی مر چکا ہے۔ اسی درمیان سنجلی کے تاؤ کے لڑکے یوگیش کو پولس نے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا تھا جس کے بعد اچانک سے یوگیش نے بھی خودکشی کر لی۔ اس کی وجہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔

اس حادثہ نے سیاسی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ کانگریس لیڈر آگرہ میں دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کی ترجمان رولی تیواری مشرا نے اس واقعہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور خود بھی اس حادثہ کے بعد وہ گہرے صدمے میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس حکومت کو انسانوں سے زیادہ گایوں کی فکر ہوگی وہاں سنجلی جیسی بیٹیوں کے ساتھ اس طرح کے حادثے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک تنبیہ ہے کہ جاؤ بچا لو اپنی سنجلی! سنجلی اب ایک علامت ہے، وہ سب کی بیٹی ہے، میری اور آپ کی بھی۔‘‘

بھیم آرمی نے سنجلی کی لڑائی سڑکوں پر لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دل دہلا دینے والے واقعہ کے بعد آگرہ کے دلتوں میں بہت زیادہ غصہ ہے۔ دلت مفکر اور سینئر صحافی دلیپ منڈل نے واقعہ سے متعلق سوال اٹھایا ہے کہ اس قتل پر ہندوستان کی میڈیا میں نربھیا واقعہ جیسا غصہ کیوں نہیں ہے!

اس واقعہ کے خلاف کئی تنظیموں نے آگرہ میں دھرنا و مظاہرہ کیا ہے۔آگرہ کی دلت تنظیموں نے 25 دسمبر کو اس واقعہ کے خلاف زبردست مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گجرات کے آزاد رکن اسمبلی جگنیش میوانی نے بھی سنجلی کے قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اتر پردیش کی حکومت کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا وقت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔