تریویندر سنگھ راوت پر بنے ’جھانپو دا‘ گانے سے اتراکھنڈ میں سیاسی ہلچل تیز

پون سیموال نے ’جھانپو دا‘ گانے میں نہ صرف ریاست کے مسائل کو منظر عام پر لایا ہے بلکہ تریویندر سنگھ راوت کی عوام مخالف پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ورشا سنگھ

تاناشاہی کا الزام جھیل رہے وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت پر بنا ایک گانا ان دنوں اتراکھنڈ کے سیاسی گلیارے میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ اس گانے میں وزیر اعلیٰ کو ’جھانپو دا‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ گڑھوالی میں جھانپو کا مطلب نیند میں سویا ہوا شخص ہوتا ہے۔

گلوکار اور نغمہ نگار پون سیموال نے گانے کے ذریعہ ریاست کے کئی ایشوز کو اٹھایا ہے۔ گھر گھر شراب کے ٹھیکے کھلوائے، بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ جگہ جگہ لکھا ملتا ہے لیکن بیٹیوں کی عزت نہیں بچ رہی، اتر کاشی میں نابالغ کے ساتھ عصمت دری اور قتل کے معاملے کو ویڈیو گیت میں دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ریاست کی موجودہ بدحالی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گانے میں تریویندر راوت حکومت کو ’سوئی ہوئی حکومت‘ کہا گیا ہے۔

تریویندر سنگھ راوت حکومت کے ایک سال کی مدت کار مکمل ہونے کے بعد سے ہی ان کی مشکلیں بڑھ رہی ہیں۔ کبھی پارٹی کے اندر بغاوت ہو جاتی ہے، اپنے ہی لیڈر اپنی حکومت کے خلاف الزامات در الزامات کی لڑیاں لگا دیتے ہیں، خاتون استاد اُتّرا کے تبادلے کے معاملے میں حکومت کی کافی بدنامی ہوئی، اب اس گانے نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ گانے کے بول کے ذریعہ مرکز میں مودی حکومت، اتر پردیش میں یوگی حکومت اور اتراکھنڈ میں ’چمچا‘ بھیجے جانے کی بات کہی ہے۔

اس ویڈیو گانے کو 29 اگست کو یو ٹیوب پر لانچ کیا گیا۔ تقریباً 76 ہزار لوگ اب تک یہ گانا دیکھ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ گانا کافی وائرل ہو رہا ہے۔ گانے کو لکھنے والے پون سیموال کا کہنا ہے کہ انھوں نے اتراکھنڈ کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے گانے کے بول لکھے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست میں ترقی کی رفتار دھیمی ہے اور مسائل بڑھ رہے ہیں۔ شراب کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ خواتین کی حالت بگڑ گئی ہے۔ انہی مسائل کو انھوں نے گانے کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے لیے استعمال کیے گئے جھانپو لفظ پر پون سیموال نے کہا کہ گڑھوال میں آرام سے، مند مند ہو کر چلنے والے اور کام کرنے والے شخص کو جھانپو کہتے ہیں۔ انھیں موجودہ وزیر اعلیٰ کا کام کچھ ایسا ہی لگا اس لیے انھیں ’جھانپو دا‘ کے لقب سے نوازا۔ گانے سے بی جے پی کی ناراضگی پر پون سیموال کا کہنا ہے کہ کیا وہ قلم کے ذریعہ اپنا درد بھی بیان نہیں کر سکتے۔

اس گانے پر یو ٹیوب میں کمنٹس بھی خوب دیے گئے ہیں۔ کرشن بڈونی نے لکھا ہے کہ ’’پہلے مجھے لگا کہ گانا غلط ہے، لیکن جب میں نے یہاں آ کر پورا سنا تب سمجھ آیا کہ گانے میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ یہ گلوکار بھائی کا ’فریڈم آف اسپیچ‘ ہے۔ جو بھی اس گانے کو سن کے نہیں سمجھا تو سمجھ لیں کہ اسے اپنے گھر، گاؤں سے اور جگہ و زمین سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ان کا کیا ہے، یہ تو پانچ سال میں اتنے گھوٹالے کریں گے کہ ان کی 7 نسل بیٹھ کر کھائے گی۔ لیکن تم کہاں جاؤ گے؟ جب تم خود اپنی جگہ میں ہی محفوظ نہیں ہو تو ہجرت کر کے کون سی زیڈ سیکورٹی حاصل کر لو گے۔ اتر کاشی میں عصمت دری کے واقعہ کو زیادہ زور نہ ملے اس لیے وزیر اعلیٰ نے انٹرنٹ سروس بند کر دی، تاکہ ان کی ناکامیابی سب کے سامنے نہ آ جائے۔ بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ آپ اس گانے کی مخالفت کی جگہ حمایت میں کھڑے ہوں تو شاید وزیر اعلیٰ جی پر کچھ اثر پڑے۔‘‘

ایک دیگر کمنٹ میں نند کشور سیموال نے لکھا ہے کہ ’’100 فیصد یہ گانا صحیح ہے۔ اتراکھنڈ اب وہ اتراکھنڈ نہیں ہے۔ سب پڑھے لکھے ہیں۔ کسی کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ اپنی ریاست اور اپنی جگہ کے لیے آواز اٹھانے کی آزادی ہمارے ملک کی آئین دیتی ہے۔ آخر وزیر اعلیٰ ہو یا وزیر اعظم، ہمارے چننے کے بعد ہی اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو پھر اقتدار ہماری ہے۔ اور خاص کر ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر اتراکھنڈ ریاست کی بنیاد ڈالی۔‘‘

اتراکھنڈ بی جے پی کو یہ گانا ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ پارٹی کے میڈیا انچارج ڈاکٹر دیویندر بھسین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پر گایا گیا گانا بے حد قابل اعتراض ہے۔ آپ کسی کے نظریات سے، طریقہ کار سے نااتفاقی ظاہر کرسکتے ہیں لیکن اس گانے میں حد سے زیادہ بے عزتی والے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے سماج میں نفرت پھیلتی ہے اور وزیر اعلیٰ کی شبیہ خراب کرنے کی نیت سے ان پر الزامات لگائے گئے ہیں۔

بدھ کو ایک بی جے پی کارکن نے تریویندر سنگھ راوت پر گانا گانے والے پون سیموال، ویڈیو بنانے والے اور پرموٹر سمیت 15 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ جب کہ ریاستی کانگریس ’جھانپو دا‘ گانا گانے والے گلوکار پون سیموال کے حق میں کھڑی ہے۔ پارٹی کے ریاستی نائب صدر سوریہ کانت دھسمانا کا کہنا ہے کہ یہ گلوکار کی اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اس کی یہ آواز نااتفاقی کی آواز ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ گلوکار پر کسی قسم کی کارروائی نہیں ہونے دیں گے۔

اُتّرا بہوگنا معاملے میں ٹیچر پر کارروائی کے حکم دے کر وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت پہلے ہی بری طرح پھنس چکے ہیں۔ میڈیا میں ان کی کافی بدنامی ہوئی۔ پارٹی کو خوف ہے کہ اگر لوک گلوکار پر سیدھے کارروائی کا نقصان ہو سکتا ہے۔ حالانکہ بی جے پی کارکن کے کندھے پر بندوق رکھ کر ایف آئی آر تو درج کرا ہی دی ہے۔

نوچھمی نارائنا گیت نے اس وقت اتراکھنڈ کے اقتدار میں ہلچل مچا دی تھی۔ اس گانے کو اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے نارائن دَت تیواری پر سب سے بڑا حملہ تصور کیا گیا تھا۔ اس کے بعد نیگی دا کا ’کمیشن کو میٹ-بھات‘ گانا بھی خوب مشہور ہوا تھا۔ لوک گلوکار نریندر سنگھ نیگی نے دونوں گانوں کو لکھا تھا اور خود ہی گایا بھی تھا۔ اس کے بعد اتراکھنڈ میں سیاست کو لے کر گانوں کے ذریعہ مخالفت کی روایت سی چل پڑی۔ سابق وزیر اعلیٰ رمیش پوکھریال نشنگ سے ہوتے ہوئے مخالفت کی اس روایت کے دائرے میں موجودہ وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت بھی آ گئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔