ظفرالاسلام خان چلے سلمان ندوی کی راہ

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا ماننا ہے کہ اگر آر ایس ایس ثالث کا کردار نبھائے تو بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ حل ہو سکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے الگ راہ اختیار کرنے والے سلمان ندوی نے اپنے ایجنڈے سے ایودھیا ایشو کو نکال دیا لیکن اب اسی راہ پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ظفرالاسلام خان تو سلمان ندوی سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد تنازعہ کا حل ہندو تنظیم آر ایس ایس نکال سکتی ہے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنا یہ نظریہ ہندی نیوز پورٹل ’نیوز 18‘کے ساتھ بات چیت کے دوران بیان کیا۔ انھوں نے نیوز پورٹل سے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’یہ ملک ہی نہیں دنیا بھی جانتی ہے کہ آر ایس ایس ایک طاقتور تنظیم ہے۔ ہندو تنظیموں میں بھی آر ایس ایس اوّل مقام پر ہے اس لیے اس کی بات کاٹنا مشکل ہے۔ اگر آر ایس ایس بابری مسجد تنازعہ میں دخل دیتا ہے تو مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔‘‘

جب ظفرالاسلام سے یہ سوال کیا گیا کہ مسلمان آر ایس ایس کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے تو پھر ان کی بات کیسے مان سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’مسلمان آر ایس ایس کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے یہ درست ہے لیکن آر ایس ایس اور اس کی موجودگی کو تو مسلمان بھی مانتے ہیں۔ اگر سبھی کے مفاد کی بات ہوگی تو تنازعہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ نیوز پورٹل سے اپنی بات چیت میں انھوں نے سیاسی دخل اندازی کو اس تنازعہ کے بڑھنے کا اصل سبب بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’سیاسی دخل اندازی نے اس مسئلہ کو بہت الجھا دیا۔ پہلے یہ تنازعہ فیض آباد کی ایک عدالت میں چل رہا تھا جس میں کسی تنظیم کی کوئی دخل اندازی نہیں تھی۔ بار بار ایک ہی بات بول کر عوام کے جذبات کو مشتعل کیا جا رہا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ظفرالاسلام نے مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جانے سے متعلق بھی’نیوز 18‘ سے بات چیت کے دوران اپنا موقف ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’مذہبی لحاظ سے بھی مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اسلام کے دو ذرائع یعنی قرآن اور حدیث میں بھی ایسا کہیں نہیں لکھا گیا ہے کہ مسجد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کی جا سکتی۔‘‘ انھوں نے بات چیت کے دوران عرب، مصر اور لیبیا میں مسجد کی جگہ بدلے جانے کی مثال بھی پیش کی جہاں مسجدوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔

بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ میں چل رہی سماعت سے متعلق ڈاکٹر ظفرالاسلام کا کہنا ہے کہ ’’یہ کیس عدالت میں 70 سال سے چل رہا ہے اور اس تنازعہ کی وجہ سے ملک میں اکثر دہشت، لڑائی جھگڑے اور بیان بازی کا ماحول بنتا رہتا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم صرف عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کے ساتھ ہی اس کے حل کا دوسرا راستہ نکالنے کی بھی کوشش کریں۔‘‘ انھوں نے بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی کی ’رَتھ یاترا‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد بڑے پیمانے پر لڑائی جھگڑے ہوئے اور ماحول خراب ہوتا چلا گیا۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب اگر اڈوانی اس رَتھ یاترا کے بارے میں سوچتے ہوں گے تو پچھتاتے ہوں گے کہ آخر یہ کیا ہو گیا۔

بہر حال، ظفرالاسلام خان کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب سلمان ندوی نے اس بابری مسجد-رام مندر ایشو سے کنارہ کر لیا تھا اور ملک کا اقلیتی طبقہ سکون کی سانس لے رہا تھا۔ ظفرالاسلام خان کا بیان یقیناً مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کو ایک بار پھر مشتعل کر سکتا ہے۔ اقلیتی طبقہ کے لیے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا یہ بیان سب سے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ آر ایس ایس دہائیوں سے چلے آ رہے اس تنازعہ کا حل نکال سکتی ہے۔ اگر آر ایس ایس کو بابری مسجد تنازعہ کے حل سے متعلق گفت و شنید میں شامل کیا بھی جاتا ہے تو سب سے بڑا سوال تو یہ کھڑا ہوگا کہ کیا وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے گی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Mar 2018, 6:00 PM