’آپ کی جانچ غلط سمت جا رہی‘، پروفیسر علی خان محمود آباد معاملہ پر سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کو لگائی پھٹکار

عدالت عظمیٰ نے ہریانہ ایس آئی ٹی سے کہا کہ وہ اپنی جانچ پروفیسر محمود آباد کے خلاف ان کے متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ سے متعلق درج 2 ایف آئی آر تک ہی محدود رکھے۔

<div class="paragraphs"><p>پروفیسر علی خان محمود آباد / تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

پروفیسر علی خان محمود آباد / تصویر بشکریہ ایکس

user

قومی آواز بیورو

ہندوستانی فوج نے پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں موجود دہشت گردوں کے خلاف ’آپریشن سندور‘ چلایا تھا۔ اس آپریشن سے متعلق اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر محمد عامر احمد عرف علی خان محمود آباد نے سوشل میڈیا پر متنازعہ تبصرہ کیا تھا۔ اس تبصرہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پروفیسر محمود کو گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں انھیں راحت دیتے ہوئے عبوری ضمانت پر جیل سے رِہا کر دیا۔ آج اس معاملے میں سپریم کورٹ میں اہم سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ہریانہ ایس آئی ٹی کی جانچ پر سوال اٹھایا اور کہا کہ یہ جانچ غلط سمت میں جا رہی ہے۔

جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوئے مالیا باگچی کی بنچ نے ایک سینئر پولیس افسر کی قیادت والی ہریانہ ایس آئی ٹی سے کہا کہ وہ اپنی جانچ کو پروفیسر محمود آباد کے خلاف ان کی متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ سے متعلق درج 2 ایف آئی آر تک ہی محدود رکھے۔ ساتھ ہی عدالت نے ایس آئی ٹی سے یہ سوال بھی کیا کہ پروفیسر کی سوشل میڈیا پوسٹ سے متعلق جانچ غلط سمت میں کیوں ہے؟


سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کو پھٹکار بھی لگائی اور کہا کہ آپ کو اس (طرح کی جانچ) کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو ایک ڈکشنری کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے ہدایت دی کہ ایس آئی ٹی یہ دیکھے کہ کیا کوئی جرم ہوا ہے۔ اس معاملے میں عدالت عظمیٰ نے ایس آئی ٹی سے کہا کہ وہ اپنی جانچ رپورٹ 4 ہفتوں میں پیش کرے۔

عدالت عظمیٰ نے ایس آئی ٹی کو اس بات کے لیے بھی پھٹکار لگائی کہ پروفیسر محمود آباد کے موبائل فون سمیت الیکٹرانک سامانوں کو ضبط کیوں کیا گیا، حالانکہ اس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ چونکہ محمود آباد ایس آئی ٹی جانچ میں تعاون کر رہے تھے، اس لیے انھیں دوبارہ طلب کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ محمود آباد کو دی گئی گرفتار سے عبوری تحفظ جاری رہے گی۔ اتنا ہی نہیں، پروفیسر محمود آباد کی ضمانت سے متعلق شرطوں میں کچھ چھوٹ بھی دے دی گئی ہے۔ انھیں عدالت میں زیر غور معاملے کو چھوڑ کر دیگر معاملوں پر سوشل میڈیا پوسٹ کرنے، مضمون لکھنے اور اپنی کوئی بھی رائے ظاہر کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔