عام انتخابات: گجرات سے لے کر یو پی-بہار تک مودی اور بی جے پی کی خیر نہیں

وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے سر اس امر کا سہرہ تو باندھا ہی جانا چاہیے کہ انہوں نے ملک کے حزب اختلاف خیمہ کے نوجوان رہنماؤں کو ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سرور احمد

جے این یو طلبا یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کے خلاف غداری کے الزامات صحیح ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو عدالت کو کرنا ہے لیکن ایک بات تو صاف ہو گئی ہے کہ بہار کے بیگوسرائے جیسے ایک چھوٹے شہر کے اس لڑکے کو ایک تیز طرار رہنما ضرور بن دیا گیاہے۔

صرف تنہا کنہیا ہی نہیں ہیں جو گزشتہ تقریباً 5 سالوں کے دوران قومی سطح پر ایک رہنما کے طور پر ابھرے ہیں بلکہ دیگر کئی رہنماؤں نے بھی سیاست میں اپنی دھماکہ خیزموجودگی درج کرائی ہے۔ جیسے گجرات میں ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی اور الپیش ٹھاکور، اتر پردیش سے چندر شیکھر آزاد اور بہار میں تیجسوی یادو اسی دور میں منظر عام پر آئے ہیں۔

بالخصوص تیجسوی یادو کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا، اگر نتیش کمار مہا گٹھ بندھن سے ناطہ نہیں توڑتے تو وہ ان کی شبیہ میں دب کر رہ جاتے، نتیش کمار نے پالا بدلا اور بی جے پی کے خیمہ میں چلے گئے ، ان کے اس قدم سے تیجسوی یادو کو ابھرنے کا موقع مل گیا، جو اب ان کے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے کھڑے ہیں۔ دیکھا جائے تو آر جے ڈی میں لالو یادو کے سیاسی وارث کو لے کر بھی کشمکش کا دور جاری تھا لیکن نتیش کمار نے یہ کام آسان کر دیا۔

اسی طرح ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اپنا صدر منتخب کرتے ہیں۔ ان میں سے کتنوں کو سیاسی سطح پر پہچان مل پاتی ہے۔ لیکن بی جے پی اور مودی کی ہڑبڑی کے باعث نہ صرف کنہیا بلکہ ان کے دوسرے ساتھی بھی لگاتار سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں۔

کنہیا کمار کا نام پہلی مرتبہ اس وقت قومی سطح پر زیر بحث آیا جب تین سال قبل کئی نیوز چینلوں نے انہیں ’ٹکڑے ٹکڑے ‘ گینگ کہنا شروع کیا۔ ان کا اور ان کے ساتھیوں کا میڈیا ٹرائل تو شروع ہو ہی چکا تھا۔ کئی نیوز اینکروں نے انہیں غدار ملک بھی کہنا شروع کر دیا تھا لیکن ان سب کے درمیان میڈیا اداروں نے انہیں اپنے پروگرامز میں بلانا شروع کر دیا، ان کے دوست بھی ٹی وی پر نظر آنے گلے۔

کچھ ماہ قبل کچھ حیرت انگیز باتیں رو نما ہوئیں، وہ میڈیا ادارے جو ان سب پر تنقید کر رہے تھے انہیں اپنے خصوصی پروگراموں میں بلانے لگے اور ان پر عائد مبینہ ’غداری ‘ کے الزامات حاشیہ پر دھکیل دیئے گئے۔ شاید انہیں خود لگنے لگا تھا کہ چھوٹے شہروں ، گاؤں اور قصبوں کے یہ لڑکے اب قومی رہنما بن چکے ہیں۔

لہذا جب 2016 میں ضمانت پر رہا ہو نے کے بعد کنہیا پہلی مرتبہ پٹنہ پہنچے تھے تو ہزاروں کی بھیڑ نے ان کا استقبال کیا تھا۔ پٹنہ کے ایس کے میموریل ہال میں ہوئے استقبالیہ میں کنہیا کی ذات کے وہ بھومی ہار بھی بڑی تعداد میں شامل تھے جنہیں روایتی طور پر بی جے پی کا مضبوط ووٹ بینک قرار دیا جاتا رہا ہے۔

اور اب تین سال بعد جب 14 جنوری کودہلی پولس نے کنہیا کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل کی تو اس وقت وہ اپنے آبائی ضلع بیگو سرائے میں تھے۔ اس طرح کی خبریں ہیں کہ کنہیا کمار سی پی آئی کے ٹکٹ پر یہا ں سے لوک سبھا چناؤ لڑیں گے اور مہا گٹھ بندھن انہیں حمایت دے گا ۔ یوں بھی مندر-منڈل سیاست کا دور شروع ہونے تک بیگو سرائے کو بہار کا ’لینن گراد‘اور سی پی آئی کا گڑھ مانا جاتا تھا۔

9 فروری 2016 سے اب تک ایک ہزار سے بھی زیادہ دنوں کے بعد وہ لوگ بھی ماننے لگے ہیں کہ کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں پر غداری کے الزامات من گھڑت ہیں جو پہلے انہیں قصوروار مانتے تھے۔

اب عدالت جو بھی فیصلہ کرے لیکن لوگوں کی نظر میں وہ ایک رہنما کے طور پر مشہور ہو چکے ہیں۔ ادھر بیگوسرائے سے اپنے امیدوار کو لے کر بی جے پی پس و پیش میں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی سے بھولا سنگھ جیتے تھے لیکن وہ جلد ہی پارٹی سے عاجز آ گئے تھے اور پچھلے سال ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں بی جے پی شاید مرکزی وزیر گری راج سنگھ کو نوادا کے بجائے بیگو سرائے سے میدان میں اتارے ۔ لیکن ان کے لئے یہ لڑائی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگی کیونکہ مہاگٹھ بندھن کی حمایت کے باعث کنہیا کمار کی پوزیشن نہایت ہی مضبوط ہوگی۔

ہمسایہ ریاست اتر پردیش کے حالات بھی علیحدہ نہیں ہیں، یہاں چندر شیکھرآزاد دلتوں کے بڑے رہنما کے طور پر منظر عام پر آ چکے ہیں، جبکہ گجرات میں الپیش، دلتوں کے اور ہاردک پٹیل پٹیلوں کے رہنما کے طور پر اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ ابھی تک مایاوتی کو دلتوں کی واحد رہنما مانا جاتا تھا اور ان کے وارث کے طور پر کوئی نام سامنے نہیں تھا لیکن اب مستقبل کے رہنما کے طور پر لوگ چندر شیکھر کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

پانچ سال قبل تمام میڈیا میں چیخ چیخ کر بولا جا رہا تھا کہ نریندر مودی کے قد کا کوئی اور رہنما ملک میں موجود نہیں ہے لیکن آج راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس ان کے سامنے ایک سخت چیلنج کے طور پر سامنے کھڑی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی چیلنجز بھگوا بریگیڈ کے سامنے منھ کھولے کھڑے ہوئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔