پی ایم مودی نے جس بلاک کو لیا تھا ’گود‘، اس کا حال آپ کو سر پیٹنے پر کرے گا مجبور

قبائلیوں کی ترقی کے لیے پی ایم مودی کے ذریعہ شروع کیے گئے ’وَن بندھو کلیان منصوبہ‘ کے تحت گود لیے گئے مدھیہ پردیش کے پاٹی بلاک کا حال 3 سال گزرنے کے بعد بہتر ہونے کی جگہ مزید بدتر ہو گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مودی حکومت کے پہلے دور میں قبائلیوں کی ترقی کے لیے ’وَن بندھو کلیان یوجنا‘ کی شروعات کی گئی تھی۔ اس کے تحت ملک بھر کے دس بلاک ’گود‘ لیے گئے۔ دیگر کا تو پتہ نہیں لیکن مدھیہ پردیش کے بڑوانی ضلع کے پاٹی بلاک میں تو حالت بدتر ہی ہوئی ہے۔ منصوبہ شروع ہوئے تقریباً 3 سال گزر گئے، لیکن علاقے سے حاملہ خواتین اور سنگین امراض میں مبتلا مریضوں کو آج بھی پہاڑوں سے جھولی اور ڈولی میں لاد کر علاج کے لیے کئی کئی کلو میٹر پیدل قصبوں تک لے جانا پڑتا ہے۔

یہ بلاک بڑوانی ضلع ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 50 کلو میٹر دور ہے۔ یہاں پہاڑوں کے بیچ کئی گاؤں بسے ہیں۔ ابادگڑ گاؤں ان میں سے ایک ہے اور لکشمن قبائلی کی فیملی یہیں رہتی ہے۔ اس کے پاس تھوڑی سی کھیتی ہے۔ فیملی کے لوگ مزدوری کر کے پیٹ پالتے ہیں۔ کچھ مہینوں پہلے اس کے بیٹے اندش کی شادی رہادیہ سے ہوئی تھی۔ بہو حاملہ ہو گئی۔ کچھ مہینوں پہلے جب اسے درد اٹھا تو اسپتال لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔


جیسے تیسے گاؤں کی ہی دائی نے سخت دردِ زہ کے درمیان بچی کی پیدائش کروا دی۔ ماں کی حالت نازک ہو گئی۔ پوری رات درد سے تڑپنے کے بعد جیسے تیسے گاؤں کے کچھ لوگوں نے جھولی بنائی اور اسے پاٹی اسپتال لے جایا گیا۔ جھولی میں ڈال کر لے جاتے ہوئے کئی گھنٹے کا وقت لگ گیا اور رہادیہ نے اسپتال جا کر دم توڑ دیا۔ اب چھوٹی سی بچی ماں کے بغیر ہے۔ اس کی پرورش دادا-دادی کر رہے ہیں۔

ابادگڑ گاؤں کی ہی رہنے والی دیلو کی بیوی گیتا بھی حاملہ تھی۔ مشکل راستوں کی وجہ سے اسپتال تک لے جانے میں اسے بھی کافی تاخیر ہو گئی اور راستے میں پیٹ میں ہی بچے کی موت ہو گئی۔ زہر پھیل جانے سے ماں کی بھی موت ہو گئی۔ خاتون کی لاش کو بھی جھولی بنا کر گھر تک لانا پڑا۔ کم و بیش یہی کہانی یہاں کے ہر گاؤں کی ہے۔ پہاڑوں کی وجہ سے پیدل چلنے لائق راستے بھی نہیں ہیں۔ بخار کے مریضوں کا جھولی میں لے جانے سے تپش مزید بڑھ جاتا ہے جس سے کئی بار حادثے بھی ہو چکے ہیں۔ مریض اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ پانچ کلو میٹر کا پہاڑی راستہ پار کرنے میں دو سے ڈھائی گھنٹہ لگتا ہے۔


علاقے میں صحت خدمات کے نام پر کوئی انتظام نہیں ہے۔ ابادھ گڑھ گاؤں میں 20-15 سالوں سے ایک ہیلتھ سنٹر کی بلڈنگ بنا کر رکھی گئی ہے، لیکن یہاں کبھی بھی اسپتال نہیں کھلا۔ بلڈنگ پوری طرح خراب ہو چکی ہے۔ ایک نرس یہاں ہفتے میں ایک آدھ بار آتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ اسپتال کی بلڈنگ میں لوگ مویشی باندھتے ہیں۔

اب علاقے میں جھولی کی جگہ ڈولی ایمبولنس چلائی جا رہی ہے۔ ایک تنظیم ’پہل‘ ہے، جس نے یہاں کام کے دوران دیکھا کہ جھولی میں، خصوصاً حاملہ عورتوں کی سانس رک جاتی ہے، پیٹ دبتا ہے جس سے ان کی موت تک ہو جاتی ہے۔ تبھی ڈولی بنانے کا فیصلہ لیا گیا۔ اس سے حاملہ خاتون کا پیٹ دبنے سے بچ جاتا ہے۔ ڈولی میں باقاعدہ پردہ نما چھت ہوتی ہے۔ لیٹنے کے لیے گدا ہوتا ہے۔ پانی کی بوتل اور رات کے لیے ٹارچ تک کا انتظام ہوتا ہے۔ ’پہل‘ تنظیم کی انوپا بتاتی ہیں کہ جب سے ’ڈولی ایمبولنس‘ علاقے میں کام کر رہی ہے، یہاں چار حاملہ خواتین کو محفوظ طریقے سے بچے کی پیدائش میں مدد ملی۔


پاٹی وہی علاقہ ہے جسے ’وَن بندھو کلیان یوجنا‘ کے تحت منتخب کیا گیا تھا۔ اس کی مکمل ترقی کے لیے مودی حکومت نے تہیہ کیا تھا۔ لیکن یہاں خصوصی سہولیات تو چھوڑیے، بنیادی صحت سہولیات بھی اب تک نہیں پہنچی ہیں۔ ضلع ہیلتھ افسر ڈاکٹر بی ایس سیتیہ کا کہنا ہے کہ پاٹی بلاک میں محض 5 ٹنڈر ڈاکٹر کے بھروسے پورا اسپتال ہے۔ باقی 16 ڈاکٹرس کے عہدے خالی پڑے ہیں۔ پورے ضلع میں 67 ڈاکٹرس کا عہدہ خالی ہے۔ ’جننی ایکسپریس‘ اور 108 کی تعداد محض 20 ہے، جب کہ 40 کی ضرورت ہے۔ علاقے میں فون کا نیٹورک تک نہیں ہے۔

پاٹی میں 3 پرائمری ہیلتھ سنٹر اور ضمنی ہیلتھ سنٹر ہیں، لیکن نہ تو اسٹاف ہے اور نہ ہی ڈاکٹر۔ بڑوانی میں آج بھی بچے کی شرح اموات 69 بچے فی ہزار ہے۔ ڈاکٹر سیتیہ کے مطابق وَن بندھو کلیان یوجنا میں منصوبے بنائے گئے ہیں، لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوا ہے۔ ممبئی کے ایک این جی او نے اس علاقے میں بائک ایمبولنس چلانے کا فیصلہ لیا ہے۔


مودی حکومت نے مالی سال 16-2015 میں ملک کی 10 قبائلی ریاستوں کے 10 بلاک کا انتخاب کیا تھا تاکہ وہاں پر وَن بندھو کلیان یوجنا چلائی جا سکے۔ اس سال کے بجٹ اعلان میں وَن بندھو کلیان یوجنا کے لیے 100 کروڑ روپے الاٹ بھی کیے گئے۔ منصوبہ کا مقصد قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی سطح زندگی، تعلیم کی اہلیت میں سدھار لانا، کلچر اور وراثت کا تحفظ کرنا اور مقامی روزگار مہیا کرانا تھا۔ سال 18-2017 میں اس منصوبہ کا بجٹ 100 کروڑ سے گھٹا کر خاموشی کے ساتھ محض ایک کروڑ کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔