یوگی حکومت کا ’تبدیلی مذہب‘ قانون عدالت میں ٹِک نہیں پائے گا: سابق سپریم کورٹ جج

جسٹس (ریٹائرڈ) مدن بی لوکر کا کہنا ہے کہ ’’جب اسمبلی کا سیشن نہیں چل رہا تھا، تب اس (آرڈیننس‘ کو فوراً جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بے شک کچھ نہیں۔ کہیں سے بھی یہ (تبدیلی مذہب) آرڈیننس نہیں ٹِکے گا‘‘

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

تنویر

یوگی حکومت نے ’لو جہاد‘ کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے جس ’جبراً تبدیلی مذہب‘ قانون کو متعارف کرایا ہے، اس کے خلاف زور و شور سے آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر نے بھی اس قانون کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ قانون عدالت میں ٹِک نہیں سکے گا، کیونکہ اس میں قانونی اور آئینی طور پر کئی خامیاں ہیں۔‘‘ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’سماجی انصاف‘ کا نظریہ اس وقت سرد خانے میں چلا گیا ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ اس سلسلے میں اتنی سرگرمی نہیں دکھا رہی ہے جتنی کہ دکھانی چاہیے تھی۔

یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل الٰہ آباد ہائی کورٹ بھی ایک معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر رہے ہیں، تو یہ ان کا آئینی حق ہے۔ اور اب جب کہ مدن بی لوکُر نے تبدیلی مذہب قانون کی مذمت کر دی ہے، تو یہ یوگی حکومت کے لیے ایک جھٹکا ہے۔ مدن بی لوکر نے یہ بیان دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی راجندر سچر پر لکھی گئی کتاب ’اِن پرسوٹ آف جسٹس- این آٹو بایوگرافی‘ کے رسم اجراء کے موقع پر دیا۔


دراصل مدن بی لوکر رسم اجراء تقریب میں ’نجی آزادی اور عدلیہ‘ موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) لوکر نے کہا کہ ’’آئین کہتا ہے کہ آرڈیننس تب جاری کیا جا سکتا ہے جب فوراً کسی قانون کو نافذ کرنے کی ضرورت ہو۔ جب اسمبلی کا سیشن نہیں چل رہا تھا، تب اسے (آرڈیننس کو) فوراً جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بے شک کچھ نہیں۔ کہیں سے بھی یہ (تبدیلی مذہب) آرڈیننس نہیں ٹِکے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */