یوگی کی اویسی کو دھمکی، تلنگانہ میں بی جے پی آئی تو حیدرآباد سے بھاگنا پڑے گا

یوگی نے اویسی کو دھمکی دی ہے کہ اگر تلنگانہ میں بی جے پی اقتدار میں آئی تو اویسی کو حیدرآباد چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا، جس پر اویسی نے جواب دیا ہے کہ وہ پہلے گورکھپور کی فکر کریں۔

تصویر سوشل میڈیا 
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

تلنگانہ اسمبلی کے لئے ووٹنگ 7 دسمبر کو ہونی ہے اور وہاں کا سیاسی ماحول اپنے شباب پر ہے۔ گرم سیاسی ماحول میں دو سخت گیر سیاسی رہنما آمنے سامنے ہیں۔ ایک جانب کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اویسی ہیں تو دوسری جانب اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ دونوں لباس اور زبان سے اپنی شناخت بتاتے ہیں کہ وہ سماج کے کس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک شیروانی اور ٹوپی پہن کر مسلمانوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو دوسرے بھگوا کپڑے پہن کر رام مندر اور ہندوؤں کے مفادات کی بات کرتے ہیں۔

تلنگانہ کے تندور علاقہ میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ اگر تلنگانہ میں بی جے پی اقتدار میں آئی تو اویسی کو ٹھیک اسی طرح تلنگانہ سے بھاگنا پڑے گا جیسے نظاموں کو حیدرآباد سے بھاگنا پڑا تھا۔ یوگی نے کہا کہ ’’حیدرآباد کا نظام پاکستانی حامی تھا وہ حیدرآباد کی ریاست کو ہندوستان میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کی سختی کی وجہ سے نظام کو حیدآباد چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا ‘‘۔

یوگی آدتیہ ناتھ کا جواب دیتے ہوئے اویسی نے ان پر حملہ کیا ہے۔ اویسی نے کہا کہ یو گی آدتیہ ناتھ کو گورکھپور کی فکر کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا ’’میں ان سے پوچھ رہا ہوں، یہ بھگانے کی بات آپ کب سے کر رہے ہیں؟ ملک آ پ کا ہے میرا نہیں ہے؟ یوگی کو اپنے انتخانی حلقہ گورکھپور کی فکر نہیں ہے جہاں ہر سال سینکڑوں بچے بیماری سے مرتے ہیں‘‘۔ اویسی نے یہ بھی سوال کیا کہ ’’اگر مودی، یوگی اور بی جے پی کے خلاف کوئی بولے گا تو اسے ملک سے بھگا دیں گے؟‘‘۔

بی جے پی کو تلنگانہ میں سب سے زیادہ فائدہ اویسی پر حملہ کر کے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے غیر مسلم ووٹ متحد ہوتے ہیں اور اس کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ سے زیادہ بہتر قائد کوئی نہیں ہے۔ دوسری جانب اس سے اویسی کو بھی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اویسی کی پکڑ اقلیتوں میں ہے جو اویسی پر حملہ کو اپنے اوپر حملہ تصور کرتے ہیں۔ اس گرم سیاست سے دونوں کو ہی فائدہ ہے اور شائد اسی لئے کچھ سیکولر جماعتیں اسے نورا کشتی بھی کہتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔