یشونت سنہا کی حزب اختلاف کی جگہ پر قابض ہونے کی کوشش

منچ کی تشکیل کے اوقات اور اس کی قیادت سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ منچ حزب اختلاف کی جگہ گھیرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔

 قومی آواز/ پرمود
قومی آواز/ پرمود
user

سید خرم رضا

نئی دہلی:بی جے پی کو خدا حافظ کہے بغیر واجپئی کابینہ کے سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر ایک ’راشٹر منچ‘ نام کا فورم بنایا ہے۔منچ کا اعلان کرتے ہوئے یشونت سنہا نے یہ واضح کر دیا کہ یہ منچ کبھی سیاسی پارٹی کی شکل اختیار نہیں کرے گا لیکن اس کی تشکیل کے اوقات اور اس کی قیادت سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ منچ حزب اختلاف کی جگہ گھیرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ اس منچ کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے سامنے درپیش تمام مسائل پر تشویش کا اظہار کیا ۔ مہاتما گاندھی کے یوم وفات کے موقع پر راج گھاٹ پر خراج عقیدت پیش کر نےکے بعد اس منچ کا اعلان کرتے ہوئے یشونت سنہا نے کہا ’’یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے ۔ ملک کے موجودہ ماحول پر ہم سب کو تشویش ہے اور اس وقت عوام کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے ایک تحریک چلانے کی ضرورت ہے‘‘۔

یشونت سنہا نے کہا کہ وہ بی جے پی یا کسی فرد کے خلاف کوئی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے یہ منچ عوام کو درپیش مسائل کا حل نکالنے کے لئے بنایا ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ وہ کبھی بھی اس کو سیاسی پارٹی کی شکل نہیں دیں گے۔ یشونت سنہا کے خاص اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ شترو گھن سنہا سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ بی جے پی کی میٹنگس میں بھی یہ مسائل اٹھاتے ہیں جن کو وہ اس منچ سے اٹھانےجا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’وہاں اٹھا پاتے تو پھر یہاں کیوں آتے، وہاں تو کوئی نہ اٹھانے دیتا ہے نہ کوئی سنوائی ہوتی ہے ۔ ملک کے سامنے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی لاگو ہونے کے بعد کے حالات ہیں اور جسٹس لویا کی موت کے معاملے کو نہیں اٹھایا جا رہا اور یہ وہ مسائل ہیں جن پر بات ہونا ضروری ہے‘‘۔

یشونت سنہا نے اس منچ کے قیام کی ضرورت کے بارے میں بتاتے ہوئےکہا کہ ملک کے 70 سال پہلے جو حالات تھے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جواقتصادی سروے پیش کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی معیشت کا کیا حال ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج ملک کی جمہوریت اور اور جمہوری اداروں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے ۔ انہوں نے کسانوں اور نوجوانوں کی بے روزگاری کے مسائل پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے پارلیمنٹ جیسے ادارے کی اہمیت کو کم کرنے کی حکومت کی کوشش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’بجٹ جیسے اہم اجلاس کے لئے حکومت نے محض 6کام کے دن رکھے ہیں جس میں سے دو جمعہ کے دن ہیں جو پرائیویٹ ممبر کے دن ہوتے ہیں یعنی بجٹ اور صدارتی خطبہ پر بحث کے لئے صرف 4دن جبکہ اس کے لئے ہمیشہ کم از کم 9دن رہتے تھے۔ کیوں ایسے اداروں کی اہمیت کم کی جا رہی ہے‘‘۔ڈوکلام اور اندرونی سلامتی کے مسائل پر بھی انہوں نے سوال اٹھائے اور خارجہ پالیسی کی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پوری طرح ناکام نظر آتی ہے کیونکہ آج نیپال، مالدیپ اور سری لنکا جیسے ممالک بھی ہمارے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے‘‘۔

اس موقع پر انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ انہوں نےبایاں محاذسے کوئی بات نہیں کی ہے جو یہ سوچنے کے لئے مجبور کرتا ہے کہ بی جے پی حکومت میں رہتے ہوئے اپنے ذہن کے لوگوں کے ذریعہ حزب اختلاف کی جگہ بھی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ آر ایس ایس کی ہی ایک کوشش ہو جیسے سنگھ نے یو پی اے حکومت کے خلاف رام لیلا میدان میں انا ہزارے اور کجریوال کی قیادت میں ایک بدعنوان مخالف محاذ تیار کیا تھااور اس میں ایسے ہی الگ الگ پارٹیوں کے لوگوں کو جمع کیا تھا، جن مورچا اور راجیو گاندھی کے خلاف چلائی گئی مہم بھی سب کو یاد ہے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ شترو گھن سنہا، سابق مرکزی وزیر اور رکن پارلیمنٹ دنیش ترویدی، این سی پی کے رکن پارلیمنٹ مجید میمن، گجرات کے سابق وزیر اعلی سریش مہتا، سابق رکن پارلیمنٹ سوم پال،جے ڈی یو کے پون ورما، شاہد صدیقی،راجیہ سبھا کے سابق رکن محمد ادیب، اجیت سنگھ کے بیٹے جینت چودھری، عام آدمی پارٹی کے دہلی سے راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ، عام آ دمی پارٹی کے سینئر رکن آشو توش،سماج وادی کے گھنشیام تیواری اورسابق سفیر کے سی سنگھ وغیرہ اس منچ کے ساتھ نظر آئے۔ اس تقریب میں کانگریس کی رینوکا چودھری بھی شریک ہوئی تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Jan 2018, 9:01 PM