بابری مسجد فیصلہ پر نظرثانی عرضی داخل کرنے سے ملک کا ماحول خراب ہوگا: سید احمد بخاری

شاہی امام نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ نظرثانی عرضی داخل کرنے کا فیصلہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

بابری مسجد اور رام مندر اراضی تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ملک میں طرح طرح کے اندیشوں اور خوف و دہشت کا ماحول تھا لیکن فیصلہ صادر ہونے کے بعد سب کچھ ٹھیک رہا اور ہندوؤں و مسلمانوں دونوں کی جانب سے مذہبی ہم آہنگی دیکھنے کو ملی۔ لیکن ایک بار پھر اس بابری مسجد-رام مندر تنازعہ نے بحث کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جب سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی عرضی داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ حیران و ششدر ہے۔ دہلی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فیصلے کے خلاف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ قدم ملک کے ماحول کو خراب کرنے والا ہے۔

شاہی امام نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ نظرثانی عرضی داخل کرنے کا فیصلہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد ملک میں جو امن و امان کا ماحول بنا ہے، اس کو زبردست جھٹکا پہنچے گا۔ سید احمد بخاری اس بات سے سب سے زیادہ ناراض ہیں کہ پہلے مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر مسلم فریقین بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ قابل قبول ہوگا، تو پھر اب مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی ہی بات سے منحرف کیوں ہو رہاہے۔


سید احمد بخاری نے ’قومی آواز‘ سے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے، وہ بابری مسجد کے خلاف نہیں ہے اور لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں چار انتہائی اہم بات جو سامنے آئی ہیں وہ یہ ہیں کہ... (1) بابری مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر نہیں ہوئی تھی، (2) مسجد میں مورتی رکھنا غیر قانونی تھا، (3) بابری مسجد میں نماز ہوتی تھی اور اس کا ثبوت موجود ہے، (4) مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی تھا۔ ان باتوں کو سامنے رکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ فتح تو بابری مسجد کے حصے میں آئی ہے، اخلاقی جیت تو مسلمانوں کی ہی ہوئی ہے۔ اس لیے اب ایسی کوئی ضرورت نہیں کہ نظرثانی کی عرضی داخل کی جائے۔

بات چیت کے دوران سید احمد بخاری نے یہ بھی کہا کہ متنازعہ زمین پر اگر بابری مسجد تعمیر کی اجازت مل بھی جائے تو کیا یہ تعمیری کام شروع ہو سکتا ہے؟ اس وقت جو ملک کے وزیر اعظم ہیں وہ بھی کھڑے ہو کر مسجد تعمیر نہیں کرا سکتے تو پھر کون ہے جو مسجد بنائے؟ اگر مسجد کی تعمیر ہو بھی جائے تو کس کی طاقت ہے کہ وہاں جا کر نماز پڑھ لے۔ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے کسی بھی طرح نہیں کہا جا سکتا کہ نظرثانی عرضی داخل کرنا صحیح ہوگا۔ اس کا مسلمانوں پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور ہندوستان میں موجود مذہبی ہم آہنگی کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا فیصلہ کسی مسلم مفاد کے تحت لیا ہوا فیصلہ نہیں معلوم ہوتا ہے اور اس کے مضر اثرات کی طرف انھوں نے دھیان نہیں دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔