یوم یوگا: وزیر اعظم نے کیوں بند کر رکھی ہیں کرپشن پر آنکھیں

مودی آج چوتھے ورلڈ یوم یوگا پر دہرادون کے اے ایف آئی میں قریب 50 ہزار لوگوں کے ساتھ یوگا کیا۔ لیکن انہوں نے ان شکایات کو لے کر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جو وزارت آیوش میں جاری بدعنوانی کو ظاہر کرتی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

اس کی اصلی عمر کیا ہے، یہ کسی کو نہیں پتہ، لیکن وہ کم از کم 15 بار اپنا نام بدل چکا ہے، اس کے بائیوڈاٹا میں لکھا ہے کہ وہ موسیقی کا پریمی ہے، تھیٹر پریمی ہے اور سائنس فکشن یعنی تصور تی سائنسی كہانییاں پڑھنے کا شوقین ہے، وہ اب تک کم از کم 80 ہزار لوگوں کو یوگا کی تربیت دے چکا ہے اور ان کا علاج کر چکا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے کم از کم 320 قومی اور بین الاقوامی یوگا کانفرنسوں میں 1000 سے زیادہ لیکچر دیئے ہیں، وہ اس تقریب میں بھی ’ماسٹر آف دی سیریمنی‘ تھا جسے وزیر اعظم خود 2015 میں ’راج پتھ کو یوگ پتھ ‘ کہہ چکے ہیں۔

اس کو پیشہ ورانہ یوگا تعلیم کا 28 سال کا تجربہ ہے اور اس نے اپنے کیریئر کی شروعات دھارواڑ میں کرناٹک یونیورسٹی میں پارٹ ٹائم یوگا انسٹرکٹر کے طور پر کی تھی اور اب وہ ملک کی اہم یوگا انسٹی ٹیوٹ کے لائف ٹائم ڈائرکٹر ہے، ایسے شخص کے خلاف کم از کم 200 شکایات مودی حکومت کی مختلف وزارتوں کو بھیجی جا چکی ہیں، لیکن وہ اپنے عہدے پر ابھی بھی رونق افروز ہے۔

جس شخص کی ہم بات کر رہے ہیں اس کا نام ہے آئی وی بساوردی، اور جو مورارجی دیسائی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یوگا کے ڈائریکٹر ہیں، یہ انسٹی ٹیوٹ وزارت آیوش کے تحت کام کرتا ہے، اس ادارے کا قیام 1998 میں یوگا ثقافت کو ملک بھر میں پھیلانے کے لئے کیا گیا تھا، لیکن بساوردی کے دور میں یہ ’بدعنوانی کا اڈہ‘بن چکا ہے، یہ الزام لگایا ہے ایک وہسل بلور (معاملے کو عیاں کرنے والا) نے جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔

وہسل بلور اسی انسٹی ٹیوٹ میں گزشتہ 5 سال سے یوگا کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، انہوں نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ بساوردی نہ صرف کرپشن اور تعصب کو فروغ دیتے ہیں، بلکہ ان کی ڈائرکٹر عہدے پر تقرری بھی غلط طریقے سے ہی ہوئی ہے۔

بساوردی کو وزیر آیوش اور بی جے پی لیڈر شری پد نائیک کا قریبی سمجھا جاتا ہے، الزام ہے کہ انہوں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر ہ تقرری حاصل کی ہے۔ وہسل بلور کے دعوے کی تصدیق کرنے والی ان کی ڈگريوں اور تعلیمی سرٹیفیکیٹ کی ایک کاپی اور کچھ آر ٹی آئی جواب ’قومی آواز‘ کے پاس ہیں۔ آر ٹی آئی سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ریکارڈ سے اس سروس بک بھی غائب ہے۔

وہسل بلور کا کہنا ہے کہ، ’’ وزیرآیوش کو یہ سب پتہ ہے، لیکن ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا ہے‘‘۔ ان کا دعوی ٰہے کہ اس بارے میں کئی شکایات براہ راست وزیر اعظم کو بھی بھیجی گئی ہیں، لیکن نتیجہ صفر ہی ہے۔

وہسل بلور کے مطابق وزارت آیوش نے نہ صرف بساوردی کی تقرری میں قوانین کی خلاف ورزی کی، بلکہ ڈائرکٹر کے خلاف کی گئی شکایات کو بھی نظر انداز کیا ہے، اپریل 2018 میں پی ایم او کو براہ راست شکایت بھیجی گئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ، ’’بساوردی کی وجہ سے ادارے کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے‘‘۔

وزیر اعظم کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ، ’’شروع میں بساوردی کی تقرری 2005 سے 2008 کے درمیان تین سال کے لئے ہوئی تھی، لیکن انہوں نے توسیع حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور آخر کار انسٹی ٹیوٹ کے لائف ٹائم ڈائریکٹر بن گئے۔ ساتھ ہی 12 سال سے عہدے پر تعینات بساوردی کے تعلیمی سرٹیفیکیٹ ،کردار سرٹیفکیٹ اور دعووں کی کوئی تحقی جانچ نہیں ہوئی، جبکہ قواعد کے مطابق حکومت ہند کی کسی بھی وزارت میں کسی بھی عہدے پر تقرری کے لئے سرٹیفیکیٹ کی جانچ لازمی ہے۔

آئی وی بساوردی کے جعلسازی کو اجاگر کرتے ہوئے وہسل بلور کا دعوی ہے کہ انہوں نے 5 اگست 1995 کو پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرایا جبکہ فلاسفی میں انہیں ڈگری جون 1996 میں ملی ہے۔ وزیر اعظم کو بھیجے خط میں کہا گیا ہے کہ،’’کوئی شخص ماسٹرز ڈگری حاصل کئے بغیر کس طرح پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرا سکتا ہے‘‘۔

وزارت آیوش کے قوانین کے مطابق کوئی بھی سی ای او، ہیڈ یا کسی ادارے یا کونسل کا ڈائریکٹر ایک ہی عہدے پر زیادہ سے زیادہ 5 سال ہی رہ سکتا ہے، لیکن بساوردی کے معاملے میں وزارت آیوش نے ان قوانین کو نظر انداز کیا ہے، اس بارے میں سوال پوچھنے پر وزارت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وہسل بلور نے اس معاملے میں وزیر اعظم سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسی انسٹی ٹیوٹ سے کورس کرنے والے صحافی سے یوگا انسٹرکٹر بننے والے ایک اور شخص نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ میں مالیاتی گڑبڑیاں بھی ہوئی ہیں اور سی وی سی کے پاس اس معاملے میں بساوردی کے خلاف تحقیقات زیر التواء پڑی ہے۔

ان الزامات پر جب ہم نے بساوردی سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ وہ کلاس میں ہیں، اس کے بعد انہوں نے ہمارے فون کا جواب نہیں دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔