خاتون فوجی سرحد پر تعینات ہوئیں تو مرد فوجیوں پر بیجا الزام لگائیں گی: جنرل راوت

فوجی سربراہ جنرل راوت نے خاتون فوجیوں کی سرحد پر تعیناتی سے متعلق جو بیان دیا ہے اس نے خواتین کے کئی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کا کہنا ہے کہ خاتون فوجیوں کو ابھی سرحد پر تعینات نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسا نہ کرنے کے لئے انہوں نے دو بڑی وجہ بتائی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان پر بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ ساتھیوں کی موجودگی میں کپڑے چینج کرنے میں خود کو تھوڑی پریشانی محسوس کر سکتی ہیں اور وہ ہمیشہ ساتھی مرد فوجی جوانوں پر تاک جھانک کا الزام لگائیں گی۔

ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل راوت نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جنگ کے وقت وہ خواتین فوجیوں کو بھیجنے کے لئے تیار تھے لیکن پھر احساس ہوا کہ ہمارے زیادہ تر جوان گاؤ ں سے آتے ہیں اور ان کو خواتین افسران کے آر ڈر کو ماننے میں ذہنی دشواری ہو سکتی ہے۔

ماں بننے پر ملنے والی چھ ماہ کی سرکاری چھٹی پر بھی انہوں نے کہا کہ سینا کے کمانڈنگ افسر کو اتنی لمبی چھٹی نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ چھ ماہ تک اپنا یونٹ نہیں چھوڑ سکتے۔

جب چینل کی رپورٹر نے ان سے سوال کیا کہ خواتین بہت قابل افسر ہیں لیکن فوج انہیں قبول کیوں نہیں کر رہی ہے تو جنرل راوت نے کہا کہ فوج میں خواتین انجینئر کے طور پر افسر ہیں اور دفتر کے کام کر رہی ہیں۔ اس پر جب رپورٹر نے سوال کیا کہ خاتون افسر سرحد پر جنگ میں تو حصہ نہیں لیتیں تو جنرل راوت نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’’اس میں کئی طرح کی دقتیں ہیں ۔ ایک تو ہمارے فوجی جوانوں کی اکثریت گاؤں سے آتی ہے اور ان کے لئے خاتون افسر سے آرڈر لینا ذہنی طور پر مشکل ہوگا۔ دوسرا ان کی چھٹی کا مسئلہ ہے اور تیسرا جنگی محاذ پر بہت کم وقت ملتا ہے کپڑے چینج کرنے کے لئے، جوان تو جلدی سے سب کی موجودگی میں چینج کر لیتے ہیں لیکن جب خاتون فوجی چینج کریں گی تو وہ یہ الزام بھی لگا سکتی ہیں کہ ان کے ساتھ مرد فوجی تاک جھانک کر رہے ہیں۔

جنرل راوت نے یہ بات اس دور میں کہی جب پوری دنیا میں خاتون فوجی جنگ کے میدان میں پیش پیش ہیں ۔ جنرل راوت کے اس عجیب و غریب بیان پر خواتین کی تنظیموں میں بے چینی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Dec 2018, 3:03 PM