یوپی اور کشمیر کی خواتین نے گردہ عطیہ کر کے ایک دوسرے کے شوہر کی جان بچائی

کشمیر اور اتر پردیش کے دو دائمی گردے کے مریضوں کو اس نئی زندگی مل گئی جب ان کی بیویوں کی جانب سے ایک دوسرے کے شوہر کو عضو عطیہ کیا گیا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: کشمیر اور اتر پردیش کے دو دائمی گردے کے مریضوں کو اس نئی زندگی مل گئی جب ان کی بیویوں کی جانب سے ایک دوسرے کے شوہر کو عضو عطیہ کیا گیا۔ ٹائم آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے اوکھلا میں واقع فورٹیس ایسکارٹس ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ’ریئر انٹراسٹیٹ سویپ ٹرانسپلانٹ‘ کو انجام دیا، جس میں عطیہ دہندگان کو تبدیل کر کے وصول کنندگان کے ساتھ اس کا ملان کیا جاتا ہے۔

پہلے مریض کا نام محمد سلطان ڈار (62 سال) ہے جو کشمیر میں ٹیلی فون کے شعبے میں کام کرتے ہیں، جبکہ دوسرے مریض کا نام وجے کمار (58 سال) ہے جو یوپی میں بریلی کے رہائشی ہیں اور سابق فوجی افسر ہیں۔ عطیہ دہندگان کافی وقت سے کڈنی ٹرانسپلانٹ کے منتظر تھے، کیونکہ ان کے متعلقہ خاندان، بشمول ان کی بیویوں کے گردے بھی ان سے میچ نہیں کر رہے تھے۔ بالآخر، کمار کی بیوی نے ڈار کو اور ڈار کی بیوی نے کمار کو اپنا گردہ عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔


دونوں افراد گزشتہ 18 ماہ سے ڈائیلاسز پر تھے۔ وہ ٹرانسپلانٹیشن کے لیے فورٹس آئے تھے۔ ہسپتال کے نیفرولوجی اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کے پرنسپل ڈائریکٹر ڈاکٹر سنجیو گلاٹی نے کہا ’’دونوں مریضوں کے کیسز میں عطیہ دہندگان اور وصول کنندہ کے خون کے گروپوں میں مماثلت نہیں تھی۔ ایسے حالات میں ایک آپشن یہ تھا کہ دونوں کے عطیہ دہندگان کو تبدیل کر دیا جائے، جوکہ ہندوستان میں بہت کم ہوتا ہے۔‘‘

گردے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیے جانے کے بعد مریضوں کو فورٹس ایسکارٹس میں داخل کیا گیا، جہاں تمام ضروری طبی ٹیسٹ کیے گئے۔ ان میں ٹرانسپلانٹ سے پہلے کی مطابقت کی جانچ شامل تھی۔ اس کے بعد تبدیل شدہ ٹرانسپلانٹ کا عمل کیا گیا تھا۔

چھ ڈاکٹروں کی ٹیم نے 16 مارچ کو چار سرجری انجام دیں، جس میں چھ گھنٹے لگے۔ ڈاکٹر گلاٹی کی قیادت میں اس ٹیم میں ڈاکٹر اجیت سنگھ نرولا (نیفرولوجی)، ڈاکٹر انیل گلیا اور ڈاکٹر پریش جین (یورولوجی اور کڈنی ٹرانسپلانٹ) اور دو جونیئر ڈاکٹر شامل تھے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ مریضوں اور عطیہ دہندگان کو 27 مارچ کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا اور وہ ٹھیک ہو رہے ہیں۔


ڈاکٹر گلاٹی نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ اگر ٹرانسپلانٹ بروقت نہیں کیا جاتا تو مریض زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک زندہ رہ پاتے۔ فورٹس ہسپتال کے زونل ڈائریکٹر بدیش چندر پال نے کہا ’’سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جن دو خواتین نے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت اور عجلت کو تسلیم کیا، وہ بلا تفریق مذہب اور جغرافیائی پس منظر اپنے گردے عطیہ کرنے کے لیے آگے آئیں تاکہ متعلقہ شوہروں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔