شہریت قانون: ٹینٹ، روشنی اور مائک کے بغیر ’پارک سرکس‘ میں خواتین کا احتجاج جاری

کولکاتا کے ’پارک سرکس میدان‘ میں گزشتہ ایک ہفتے سے بڑی تعداد میں خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ بغیر ٹینٹ، لائٹ اور مائک کے ہی یہ خواتین CAA اور NRC کے خلاف سراپا احتجاج ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

کولکاتا: دہلی کے ”شاہین باغ“کے طرز پر کولکاتا کے ”پارک سرکس میدان“میں بھی شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف خواتین گزشتہ 7جنوری سے احتجاج کررہی ہیں مگر کولکاتا کارپوریشن کی اجازت نہیں ملنے کی وجہ سے مظاہرہ کررہی خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ نہ ٹینٹ اور نہ ہی لائٹ اور مائیک کے استعمال کی اجازت ہے۔ چنانچہ خواتین سرد رات میں بھی کھلے آسمان میں بیٹھ کر احتجاج کررہی ہیں اس کی وجہ سے خواتین جہاں مرکزی حکومت کے رویے سے ناراض ہیں وہیں ریاستی حکومت کے تئیں بھی نالا ں ہیں۔


7جنوری کو کولکاتا کی کچھ مقامی خواتین اچانک پارک سرکس میدان پہنچ کر احتجاج کرنا شروع کردیا اور اس کی خبر عام ہوتے ہی شہر کے مختلف مقامات سے خواتین یہاں پہنچنا شروع ہوگئیں۔تاہم دہلی کے شاہین باغ کی طرح یہاں کا احتجا ج منظم نہیں ہے۔دھرنے میں شامل ایک خاتون نے کہا کہ کولکاتا کارپوریشن سے یہاں پر ٹینٹ لگانے، لائٹ کے انتظامات کرنے اور موبائل باتھ روم اور مائیک کے استعمال کی اجازت مانگی گئی تھی مگر کارپوریشن نے اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے کھلے آسمان میں احتجاج کررہی ہیں۔

سی پی ایم کے پولٹ بیورو ممبر وسابق ممبر پارلیمنٹ محمد سلیم نے کہا کہ پارک سرکس میدان کا احتجاج کولکاتا کی عام خواتین کا احتجاج ہے جس میں گرچہ بڑی تعداد میں مسلم خواتین شامل ہورہی ہیں مگر ایک بڑی تعداد غیر مسلم خواتین کی بھی جس میں کولکاتا کی کئی یونیورسٹی کی طالبات بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف ممتا بنرجی کولکاتا کے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف ہیں۔ممتا بنرجی احتجاج بھی کررہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی بینر کے بغیر احتجاج کررہی عام خواتین کو پارک سرکس میدان میں احتجاج کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے۔


محمد سلیم نے کہا کہ اس احتجاج میں ان کی پارٹی شامل نہیں ہے مگر جمہوریت اور کاز کی وجہ سے وہ اس احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت کے مسلم وزراء اور مسلم کاؤنسلرس احتجاج کی انتظامیہ کو یہاں سے ہٹنے کیلئے دھمکیاں دے رہے ہیں۔انہوں نے ایک مسلم وزیر (جان بوجھ کر نام کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے)کا نام لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی لوگوں کو فون پر دھمکی دی ہے کہ اگر دھرنا ختم نہیں کیا گیا تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔محمد سلیم نے کہا کہ اگر دھرنے کو طاقت اور سازش کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی پارٹی اس کی مخالفت کرے گی۔

کولکاتا کے سرکردہ سماجی کارکن جو مختلف تنظیموں اورا داروں سے وابستہ ہیں نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا کہ تین دن قبل نصف رات میں ایک مسلم وزیر نے فون کرکے کہا کہ پارک سرکس میدن میں جوکچھ ہورہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ممتا بنرجی جب خود احتجاج کررہی ہیں تو پھر الگ سے خواتین کو احتجاج کرنے کی ضرورت کیا ہے۔”دیدی ناراض“ ہوسکتی ہیں اور کچھ لوگ اس کو فرقہ واریت کی شکل دے سکتے ہیں۔سماجی کارکن نے کہا کہ وہ حیران ہوگئے کہ آخر اس احتجاج سے حکومت کیوں پریشان ہے۔


محمد سلیم سوال کرتے ہیں کہ جب دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کو سڑک پر احتجاج کرنے اور ٹینٹ لگانے کی چھوٹ مل سکتی ہے تو پھر حکومت پارک سرکس میدان میں ٹینٹ لگانے اورروشنی ودیگر سہولیات لگانے کی اجازت کیوں نہیں دے رہی ہے۔خیال رہے کہ کولکاتا کارپوریشن کے دفتر سے رابطہ کرنے پر کوئی بھی جواب نہیں دیا گیا۔

دھرنے میں گزشتہ تین دنوں سے عالیہ یونیورسٹی میں فیزکس کی ایک طالبہ(جان بوجھ کر نام نہیں لکھا جارہا ہے)نے کہا کہ ہم لوگ کسی بھی تنظیم اور یونین سے وابستہ نہیں ہیں۔چوں کہ مرکزی حکومت نے ہندوستان کے دستور پر بلاواسطہ حملہ کیا ہے اس لئے ہم لوگ یہاں آئے ہیں۔اس سوال پر کہ کھلے آسمان اور اندھیرے کی وجہ سے جسمانی طور پر نقصانات پہنچ سکتا ہے تو طالبہ نے کہا کہ جب قوم کے وجود کا سوال ہوجائے تو یہ مشکلات چھوٹی نظرآتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ ممتا بنرجی این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ کی پرزور مخالفت کررہی ہیں مگر این آر پی سے متعلق ان کا موقف مبہم ہے۔کیوں کہ ایک طرف جہاں وہ بنگال میں این آر پی نافذ نہیں کرنے کی بات کررہی ہیں مگر دوسری طرف ٹریننگ کیلئے نوٹس دیئے جارہے ہیں۔


رابندر یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر جو خواتین کے دھرنے میں پہلے دن سے شامل ہیں نے کہا کہ یہ دھرنا صرف ایک کمیونیٹی اور اس کیلئے نہیں ہے بلکہ یہاں بڑی تعداد میں جادو پور یونیورسٹی، کولکاتا یونیورسٹی،عالیہ یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کی طالبہ شریک ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں جب بھی ہندوستان کی تاریخ لکھی جائے تو شہریت ترمیمی ایکٹ،این آر سی اور این آر پی کے خلاف یونیورسٹیوں کے طلباء کی تحریک کو سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا اور اب خواتین بھی سامنے آگئی ہیں۔

80سالہ سماجی کارکن سپنا چٹرجی جو ناڑی شکتی اور دیگر مختلف تنظیموں سے وابستہ ہیں نے کہا کہ میں نے آسام میں کام کیا ہے، وہاں دیکھا ہے کہ کس طریقے سے این آر سی سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ماں کو اولاد سے دور کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں این آر سی کا نفاذ کسی بھی حادثے سے کم نہیں ہوگا۔ملک کو تباہ و بربادکردے گا۔کروڑوں خواتین کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے صرف مسلمان متاثر ہوں گے یہ ان کی غلط فہمی ہے اس سے ہندوستا ن کا ہرایک شہری متاثر ہوگا ۔


دھرنے میں ہرروز شرکت کرنے آنے ولی اپرنا بتاتی ہیں کہ حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ میں مسلمانوں کو نام شامل کرکے دستور کے روح پر حملہ کیا ہے اور اس کے نقصانات مستقبل میں خطرناک ہوں گے اوریہ ایکٹ ایک نظیر بن جائے گی۔اس لیے ہم لوگ اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔