کیا شندے کرناٹک سرحدی تنازعہ میں خود کو بچا پائیں گے؟ بی جے پی کے ساتھ ان کی حالت ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘ جیسی

ایسا لگتا ہے کہ شندے اپنے ہی داؤ میں پھنس چکے ہیں، کیونکہ اگر بی جے پی ان کے تمام امکانات کو ختم کر دیا تو ان کے پاس ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا میں واپسی کا بھی موقع نہیں ملے گا

ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس
ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس
user

سجاتا آنندن

ایکناتھ شندے کو اپنی بنیادی تنظیم شیو سینا سے الگ ہوئے اور بی جے پی سے ہاتھ ملا کر مہاراشٹر میں حکومت بنائے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے ہیں لیکن اس کی مشکلات روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ تازہ ترین معاملہ کرناٹک کے ساتھ مہاراشٹر کا سرحدی تنازع ہے۔ اور اس بار انہیں کسی اور سے نہیں اپنی نئی سیاسی حلیف بی جے پی کے ہی چیلنج کا سامنا ہے۔ اس پیشرفت سے یہ ایک طرح سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ بی جے پی کا ارادہ شیوسینا کو تباہ کرنا ہے۔

مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کا سرمائی اجلاس ناگپور میں جاری ہے۔ اجلاس شروع ہوتے ہی وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے پر سنگین الزامات کئے گئے کہ انہوں نے ناگپور میں کچی بستیوں کے لیے مختص زمین ایک پرائیویٹ بلڈر کو الاٹ کر دی۔ الزام ہے کہ ناگپور امپروومنٹ ٹرسٹ کی سخت مخالفت کے باوجود شندے نے ایسا کیا۔

اس معاملے پر مہا وکاس اگھاڑی نے اسمبلی میں شندے کے استعفیٰ کے مطالبہ کے درمیان ہی سابق نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے ایک حران کن انکشاف کیا کہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کو اس اراضی گھوٹالہ کی معلومات بی جے پی ذرائع سے ہی حاصل ہوئی ہیں۔

جلد ہی اس گھوٹالے کی پرتیں کھلنے لگیں۔ ایسے حالات پیدا کرنے کی سازشیں ہونے لگیں کہ شندے کی پوزیشن کو اتنا غیر مستحکم کر دیا جائے کہ وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائیں۔ ذرائع کے درمیان چرچا ہے کہ شندے کے زیادہ تر ارکان اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوں جائیں گے اور دیویندر فڈنویس دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے کا خواب پورا کر سکیں گے!


اس الزام کے بعد ایکناتھ شندے نے عجلت میں نجی بلڈر کے نام کیا گیا ناگپور زمین الاٹمنٹ منسوخ کر دیا اور زمین ناگپور امپروومنٹ ٹرسٹ کو واپس کر دی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا لیکن مصیبتیں کبھی تنہا نہیں آتیں۔ مہاراشٹر اور کرناٹک کے درمیان جاری سرحدی تنازعہ اب شندے کے گلے کا پھندا بنتا جا رہا ہے۔

اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں ابھی کافی گرما گرمی باقی تھی کیونکہ مہا وکاس اگھاڑی نے ایک طرح سے بی جے پی-شندے حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ دریں اثنا، سرحدی تنازع پر حکومت سے سوال کیا گیا کہ جب یہ معاملہ اتنے سالوں سے سرد پڑا ہے تو پھر کس نے اس معاملے کو نئے سرے سے چھیڑ دیا؟ اس کے جواب میں، این سی پی کے مہاراشٹر کے صدر جینت پاٹل کو پورے اجلاس کے لیے اسمبلی کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔ پاٹل نے سرحدی تنازعہ کے سلسلے میں ٹوئٹر کے سی ای او ایلون مسک کو بھی ایک خط لکھا تھا، جس میں یہ معلوم کرنے کی درخواست کی گئی کہ سرحد پر آگ بھڑکانے والا ٹوئٹ سب سے پہلے کہاں سے کہا گیا!

دراصل، بی جے پی نے کرناٹک میں یہ مسئلہ نئے سرے سے اٹھایا ہے اور مہاوکاس اگھاڑی کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی پر الزام لگا رہی ہے کہ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ مہاراشٹر کی سرحد کے اندر 40 گاؤں کے لوگ کرناٹک کے ساتھ انضمام چاہتے ہیں۔ اگرچہ بومئی نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ان کا ٹوئٹ اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا لیکن مہاراشٹر کے لیڈروں کو یہ باتا ہضم نہیں ہوئی۔ دوسری طرف، مہاراشٹر بی جے پی کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ بومئی پر کس طرح تنقید کی جائے کیونکہ وہ ان کی اپنی پارٹی کے لیڈر ہیں۔

اس سلسلے میں ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس نے گزشتہ ہفتے دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد اس ہفتے پھر دونوں نے امت شاہ سے الگ ملاقات کا وقت مانگا تھا۔ اجلاس کے بعد دیویندر فڈنویس نے کہا تھا کہ مہاراشٹر کرناٹک کو اپنی ایک انچ زمین بھی نہیں دے گا۔ اس دوران شیوسینا کے اصل لیڈر ادھو ٹھاکرے نے تجویز پیش کی تھی کہ متنازعہ علاقے کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے۔


لیکن اس معاملے پر بری طرح پھنسے ایکناتھ شندے کوئی بیان تک نہیں دے سکے۔ دراصل انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے کوئی بیان دیا تو بی جے پی ناراض ہو جائے گی اور ان کی کرسی خطرے میں پڑ جائے گی۔ حالت یہ ہے کہ شندے نہ تو ادھو جیسا بیان دے سکتے ہیں اور نہ ہی وہی سوال اٹھا سکتے ہیں جو جینت پاٹل نے اٹھایا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بی جے پی کے ساتھ ان کے اتحاد کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

خیال رہے کہی بالاصاحب ٹھاکرے کی قیادت میں شیوسینا کی بنیاد مراٹھی مانس کے نعرے کے ساتھ رکھی گئی تھی اور شیو سینا کے کسی بھی دھڑے کے لیے کرناٹک سرحد کے معاملہ پر مراٹھی مانوس کو الگ تھلگ چھوڑنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1968 میں مہاراشٹر-کرناٹک سرحدی تنازعہ پر ایک بڑا ہنگامہ ہوا تھا اور شیوسینا نے اس معاملے پر بہت سخت موقف اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد سے شیو سینا نے سرحدی تنازعہ پر اپنا موقف کبھی نرم نہیں کیا اور نہ ہی اس مسئلے کو نظر انداز کیا۔

ایسی صورت حال میں ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کے لیے سرحدی تنازع ایک تھالی میں پیش کیا گیا ایشو ہے جس پر وہ سڑکوں پر آ سکتا ہے، وہیں کانگریس اور این سی پی، مہاویکاس اگھاڑی میں اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی جنوبی مہاراشٹر میں سیاسی فائدہ ملے گا، کیونکہ یہاں شیو سینا اور بی جے پی کبھی مضبوط نہیں رہی۔ لیکن شندے کی شیوسینا کس طرح اپنی ہی حکومت کے خلاف محاذ کھولے گی یا مرکز میں اپنے اتحادی کا سامنا کرے گی؟

دریں اثنا، شندے کو اپنے مخمصے کا احساس ہے کیونکہ یہ ان کے لیے ذاتی مسئلہ ہے، کیونکہ پارٹی کے باقی لوگ آسانی سے بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن وہ مشکل میں پڑ جائیں گے۔ مہاراشٹر کے ایک سیاسی تجزیہ کار نے بجا فرمایا کہ ’’یہ کسی تنگ راستے پر چلنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایسا راستہ ہے جس کے ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی ہے۔ ایسی صورت حال میں شندے نہ تو کہیں جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی سے مدد طلب کر ستے ہیں۔


اس تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ شندے اس وقت پوری طرح سے بی جے پی کے رحم و کرم پر ہیں۔ اور اب بی جے پی ہی ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے اور کب کرے گی یہ اس کے مزاج پر منحصر ہے۔ بی جے پی جب تک چاہے شندے کو ڈھیل دے سکتی ہے اور جب چاہے ان کے پیروں تلے سے زمین کھسکا سکتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ شندے اپنے ہی داؤ میں پھنس چکے ہیں، کیونکہ اگر بی جے پی ان کے تمام امکانات کو ختم کر دیا تو ان کے پاس ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا میں واپسی کا بھی موقع نہیں ملے گا۔ اور بی جے پی کے ارادے کو نہ سمجھنے کے لیے وہ صرف خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، کیونکہ بی جے پی نے تو 2019 میں ہی ادھو ٹھاکرے کو دھوکہ دے دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔