سرجیکل اسٹرائیک کرنے والی حکومت منی پور میں تشدد پر قابو کیوں نہیں پا رہی؟ آرک بشپ کلیمس کا مودی حکومت پر نشانہ

منی پور میں نیم فوجی دستوں کی موجودگی کے باوجود تشدد کے واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں۔ اس دوران سیاسی رہنماؤں کے گھروں کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ٹوئٹر /&nbsp;@Sobha4BJP</p></div>

تصویر بشکریہ ٹوئٹر /@Sobha4BJP

user

قومی آوازبیورو

امپھال: منی پور میں جاری تشدد کے درمیان کیرالہ کیتھولک بشپس کونسل (کے سی بی سی) کے صدر کارڈینل مار باسیلیوس کلیمس نے مرکزی حکومت پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ ہندوستان سے عیسائیت کو ختم کر سکتے ہیں۔ سائرو-مالانکارا کیتھولک چرچ کے آرچ بشپ، کارڈینل مار باسیلیوس کلیمس اتوار (9 جولائی) کو کیرالہ میں منی پور کے معاملے پر کانگریس کے ایک رکن اسمبلی کی قیادت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران خطاب کر رہے تھے۔

کلیمس نے پی ایم مودی سے اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑنے کی اپیل کی اور تشدد سے متاثرہ منی پور میں فوری طور پر امن بحال کرنے کے لیے مرکز کی مداخلت کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم مودی کو اب اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑنی چاہئے۔ یہ ان کے لیے دنیا کو یہ پیغام دینے کا بہترین موقع ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت برقرار ہے۔


آرک بشپ کلیمس نے کہا کہ ہمارا آئین جو کسی کو بھی کسی مذہب کی پیروی کرنے کا اختیار دیتا ہے، اسے چھپایا کیوں جا رہا ہے؟ مرکز کو اپنی خاموشی توڑنی چاہیے اور منی پور میں امن بحال کرنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔

کلیمس نے سوال کیا کہ منی پور میں 65 دنوں سے دو برادریوں کے درمیان فسادات جاری ہیں، سرجیکل اسٹرائیک کرنے والی حکومت ان فسادات پر قابو کیوں نہیں پا رہی ہے۔ کیرالہ کے دیگر عیسائی بشپس نے بھی مرکز سے اس معاملے میں مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔


قابل ذکر بات یہ ہے کہ 3 مئی کو منی پور میں شیڈیول ٹرائب (ایس ٹی) کا درجہ دینے کے میتئی برادری کے مطالبے کے خلاف ایک قبائلی یکجہتی مارچ نکالا گیا تھا۔ اس کے بعد ریاست میں پرتشدد جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ جس میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور سینکڑوں لوگ بے گھر ہو کر ریلیف کیمپوں میں مقیم ہیں۔ میتئی برادری اور قبائلی کوکی کے درمیان لڑائی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔