’اعظم خان کی ناراضگی اپنے لئے ہے قوم یا ملک کے لئے نہیں‘

لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اگر اعظم خان کے بجائے ملائم سنگھ یادو جیل میں ہوتے تو کیا اکھلیش یادو تب بھی صرف ٹوئٹ کرتے؟

فائل تصویر آئی اے این  ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

آس محمد کیف

آج کل جیل میں بند سماج وادی پارٹی رہنما محمد اعظم خان کی ناراضگی کی خبروں کے درمیان کئی قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔ اعظم خان ایک سینئر سوشلسٹ رہنما ہیں اور وہ دسویں بار اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔ اس سے قبل 2019 میں وہ رام پور لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے، فی الحال وہ 2 سال سے جیل میں ہیں لیکن وہ موجودہ اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے سب سے سینئر رکن ہیں۔

اعظم خان نے اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کی حکومت بنانے کے ہر موقع پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ سماج وادی پارٹی اس وقت اتر پردیش میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ اتر پردیش میں حکومت بی جے پی کی ہے، یوگی آدتیہ ناتھ ایک بار پھر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود اعظم خان کی وجہ سے اتر پردیش کی سیاست گرم ہے ۔ ایک بار پھر چرچا ہے کہ اعظم خان سماج وادی پارٹی سے ناراض ہو گئے ہیں اور وہ سماج وادی پارٹی چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔


یہ بحث رامپور سے ہی شروع ہوئی ہے جہاں ان کے قریبی میڈیا انچارج فصاحت علی خان شانو نے کھلے عام سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو پر مسلمانوں کو نظر انداز کرنے اور انہیں سیاسی طور پر اچھوت بنانے کی سازش کرنے کا الزام لگایا ۔ فصاحت علی خان کے اس بیان کو ذاتی سمجھا جا سکتا تھا، لیکن شیو پال سنگھ یادو اور آچاریہ پرمود کرشنن کا اعظم خان سے ملاقات کے لیے جیل جانا اور پھر سماج وادی پارٹی کے وفد سے اعظم خان کی ملاقات نہ کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ فصاحت علی خان نے جو کچھ کہا اس میں کچھ حقیقت ہےیعنی اعظم خان ناراض ہیں۔

ظاہر ہے کہ اعظم خان سماج وادی پارٹی سے ناراض ہیں جس کی وجہ سے کئی رہنما ان سے جیل میں ملنے آ رہے ہیں۔ شیو پال سنگھ یادو اور آچاریہ پرمود کرشنن،جنہوں نے اعظم خان سے ملاقات کی انہوں نے ملاقات کے بعد اعظم خان کے درد سے باہر کے لوگوں کو آگاہ کیا۔اعظم خان کی اتر پردیش میں بڑی سیاسی اہمیت ہے اور خاص طور پر مسلمانوں میں ان کی ایک پکڑ تصور کی جاتی ہے۔ ان دنوں اعظم خان اور ان کے بیٹے عبداللہ اعظم دونوں رام پور سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر ایم ایل اے ہیں۔واضح رہے اعظم خان سماج وادی پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں اور انہوں نے کبھی پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔


اصل معاملہ یہ ہے کہ اعظم خان ناراض کیوں ہیں اور وہ اس ناراضگی میں کس حد تک جا سکتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں یا کئی پرانے سماجوادی رہنما مل کر نیا اتحاد بنا رہے ہیں؟ کیا وہ کانگریس میں جا رہے ہیں؟ آخر اعظم خان اکھلیش یادو سے ناراض کیوں ہیں؟ یہ بھی خبروں میں ہے کہ وہ کسی بی جے پی رہنما سے رابطے میں ہیں۔کیا اعظم خان 2 سال جیل میں رہنے کے بعد ٹوٹ چکے ہیں اور وہ باہر آنے کے لیے بے چین ہیں۔کیا اعظم خان اتنے طاقتور ہیں کہ وہ سماج وادی پارٹی کو دو ٹکڑے کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ کیا مسلمان واقعی اکھلیش یادو سے ناراض ہیں؟

اس تعلق سے سہارنپور کے سماج وادی پارٹی کے رہنما فیروز آفتاب کا کہنا ہے کہ اعظم خان کی ناراضگی پوری طرح سے جائز ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں نے یکطرفہ طور پر سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا ۔اگر ان کے ووٹوں میں کوئی تقسیم نہیں ہے تو مسلمان کم از کم ایس پی صدر اکھلیش یادو سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل پر آواز اٹھائیں ، لیکن اکھلیش یادو اپنے ناقدین کو موقع فراہم کر رہے ہیں جن کو لگتا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ان کا ہندو ووٹر ان سے ناراض ہو جائے گا۔ اب ہندو ووٹر کا تو پتہ نہیں لیکن یہ طے ہے کہ مسلم ووٹر ضرور ناراض ہو جائیں گے اور وہ انہیں چھوڑنے کا ذہن بنا رہا ہے۔ یہی حال اعظم خان صاحب کا بھی ہے۔


سماج وادی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر نے وضاحت کی کہ لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اگر اعظم خان کے بجائے ملائم سنگھ یادو جیل میں ہوتے تو کیا اکھلیش یادو تب بھی صرف ٹویٹ کرتے؟ اکھلیش یادو سماج وادی پارٹی کی مسلمانوں کی پارٹی ہونے کی شبیہ کو بدلنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ مسلمانوں سے فاصلہ بنا ہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے پولرائزیشن کو روکنے کے لیے یہ بات سمجھ میں آ سکتی تھی لیکن اب کیا مجبوری ہے! آخر اب انہیں آواز اٹھانے سے کون روک رہا ہے!

اعظم خان کی ضمانت پر سپریم کورٹ میں 26 اپریل کو سماعت تھی جو ملتوی کر دی گئی ہے۔ رام پور کے رہنے والے ناصر علی کا کہنا ہے کہ الیکشن سے متعلق انٹرویو میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ سماج وادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو نہیں چاہتے کہ اعظم خان جیل سے باہر آئیں۔ہم نے اسے سمجھنے کی کوشش کی، تب سمجھ میں آیا کہ شاید ان کے آنے سے الیکشن فرقہ واریت کا شکار ہو جائے گا اور بی جے پی جیت جائے گی، اس لیے اکھلیش یادو شاید یہ نہیں چاہتے تھے لیکن یہ بات ان کو اعظم صاحب اور ان کے بیٹے کو ٹکٹ دیتے وقت بھی سوچنا تھا۔


لکھنؤ کی سماج وادی پارٹی کے ایک اہم رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ اعظم خان صاحب ناراض ہیں لیکن ان کی ناراضگی برادری کے لیے نہیں ہے، دراصل وہ پہلے تو اپوزیشن لیڈر بننا چاہتے تھے، جسے خود اکھلیش یادو نے قبول کر لیا ۔اس سے انہیں مایوسی ہوئی، اب وہ اپنے قریبی کے لیے رام پور لوک سبھا کا ٹکٹ چاہتے ہیں، جب کہ پارٹی اعظم گڑھ میں مسلم امیدوار اور رام پور میں ہندو امیدوار دینے پر غور کر رہی ہے۔ اعظم خان کی اہلیہ راجیہ سبھا ایم پی اور ایم ایل اے رہ چکی ہیں، ان کے بیٹے عبداللہ اعظم ایم ایل اے ہیں۔ پارٹی اب ایک نئی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، وہ ایک جگہ سب کچھ نہیں دے سکتی۔ دراصل اعظم خان کی اصل ناراضگی یہیں سے ہے۔ واضح رہے اعظم خان رام پور سے ہی ایم پی منتخب ہوئے تھے اور 2019 میں اعظم خان نے یہاں جیا پردا کو 90 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔

سماج وادی پارٹی کے ایک اور رہنما فرہاد عالم کا کہنا ہے کہ اعظم خان صاحب کو جلد از جلد جیل سے باہر آنا چاہیے اور اس کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں سیاسی وجوہات کی بنا پر ہراساں کیا گیا ہے۔ سماج وادی پارٹی ان کی عدالت میں جنگ لڑ رہی ہے۔ پارٹی میں تقسیم یا ٹوٹ کے امکان نہ کے برابر ہیں یہ الگ بات ہے کہ ماضی بتاتا ہے کہ انہوں نے سماج وادی پارٹی میں کئی مسلم رہنماؤں کو روکنے کا کام کیا۔ اعظم خان اکثر ذاتی معاملات پر ناراض رہے ہیں، وہ مسلمانوں کے معاملے پر کبھی ناراض نہیں ہوئے ۔ آج کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے،وہ کہیں نہیں جائیں گے ۔


اعظم خان کی ناراضگی کی وجہ کچھ بھی ہو، اس واقعہ نے سماج وادی پارٹی میں ہلچل ضرور مچا دی ہے۔ مظفر نگر میں، منگل کو، ایس پی کے دو ارکان اسمبلی جیل میں بند کیرانہ کے رکن اسمبلی ناہید حسن سے ملنے پہنچے ۔چرتھاول سے رکن اسمبلی پنکج ملک اور میراپور کے رکن اسمبلی چندن چوہان کی اس ملاقات کے سیاسی اثرات بھی نکالے جا رہے ہیں۔ اب یہ ایک چرچا بھی شروع ہو گئی ہے کہ ناہید حسن اپنے اور اپنی والدہ تبسم حسن جو سابق رکن پارلیمنٹ رہ چکی ہیں کےخلاف گینگسٹر کی کارروائی میں مضبوط موقف نہ لینے پر پارٹی سے ناراض ہیں۔ دونوں ارکان اسمبلی اب ناہید حسن کی لڑائی لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Apr 2022, 6:11 AM