اتراکھنڈ کے مسلمان خوفزدہ کیوں ہیں؟

مسلمانوں کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ انہیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہاں سے چلے جانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

قومی آوازبیورو

اتراکھنڈ میں مسلمان خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ اس موسم گرما میں 'لو جہاد' کے ایک فرضی معاملہ کی تشہیر کی گئی اور اس کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو اپنے کام دھندے سمیٹ کر اتراکھنڈ چھوڑ کر چلے جانے کو کہا۔ صرف اتنا ہی نہیں مسلمانوں کی دکانوں پر سیاہ رنگ کے نشان لگا دیے گئے، بازار میں دھمکی آمیز پوسٹر نظر آنے لگنے لگے۔ ایسے حالات میں کچھ خوف زدہ مسلم خاندان ریاست چھوڑ کر چلے بھی گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لو جہاد کے اس مبینہ معاملہ میں ملوث افراد میں سے ایک ہندو تھا۔ لڑکی کے چچا کا کہنا ہے کہ 'جرم' کا کوئی مذہبی زاویہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہندو انتہا پسندوں نے اپنی طرف سے ایک شکایت تیار کی، جسے پولیس نے قبول نہیں کیا لیکن پولیس کا ایف آئی آر درج کرنے سے انکار نہ تو ان لوگوں کو مئی اور جون کے دوران فرقہ وارانہ جنون بھڑکانے سے روک سکا اور نہ ہی وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو 'لو جہاد' کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اعلان کرنے سے۔

نریندر مودی حکومت پارلیمنٹ کو یہ اطلاع دے چکی ہے کہ 'لو جہاد' جیسا کوئی جرم موجود نہیں ہے، اس کے باوجود بی جے پی لیڈر مودی حکومت کے گزشتہ نو سالوں کے دوران اس پسماندہ نظریہ کو قومی دھارے میں لے آئے ہیں کہ بڑی تعداد میں ہندو اس پر یقین بھی کرنے لگے ہیں۔

ریاست کے شمال میں واقع اترکاشی میں پیش آنے والے اس واقعے پر ابھی دھول بھی نہیں جمی تھی کہ 400 کلومیٹر دور ریاست کے جنوب میں واقع مشہور سیاحتی مقام نینی تال میں ایک اور واقعے نے مسلمانوں کو اپنی زندگی اور معاش کے حوالہ سے خوف میں مبتلا کر دیا۔ جون میں دائیں بازو کی کچھ خبر رساں تنظیموں نے خبر دی تھی کہ ہلدوانی بلاک کے دیہی علاقے کملواگنج میں محمد نفیس نامی ایک مسلم بڑھئی نے ہندو ہونے کا جھانسہ دیا اور گائے کی عصمت دری کرنے کی کوشش کی۔ ان الزامات کی بنیاد پر ہندوؤں نے اسے مارا پیٹا اور اس کا سر منڈوا دیا۔


اس کے بعد جو ہوا اسے مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا لیکن قومی خبروں میں کبھی جگہ نہیں ملی۔ چونکہ پولیس نے ہندو بنیاد پرستوں کو قابو کرنے کی کوشش نہیں کی اس لیے وہ مسلمانوں کو دھمکاتے رہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ سینکڑوں مسلمانوں نے اپنی دکانیں بند کر دیں۔ پرولا کے مقابلے میں کملوا گنج کے واقعہ کے بارے میں مسلم کارکنوں نے زیادہ آواز بلند کی۔ اس واقعے کے چار ماہ بعد 6 ستمبر کو جب ہرش مندر ہلدوانی آئے تو مسلم کارکنوں نے ان سے ملاقات کی اور بتایا کہ مسلمان اب اتراکھنڈ میں رہنے سے ڈر رہے ہیں۔

مینڈر نے 2017 میں ’کاروانِ محبت‘ مہم شروع کی تھی اور اسی کے تحت وہ اتراکھنڈ گئے تھے اور ہلدوانی میں دی گئی تقریروں کی ریکارڈنگ بھی آرٹیکل-14 ڈاٹ کام پر شیئر کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلم مخالف مہم کا پیغام کچھ اس طرح لگتا ہے، ’’خواتین ہماری ملکیت ہیں، اور آپ ان کے ساتھ 'لو جہاد' کر رہے ہیں۔ گائے ہماری ماتا ہے اور آپ ان کی عصمت دری کر رہے ہیں۔‘‘

ایک شخص نے بتایا کہ نفیس پر یہ الزام ایک ہندو نے لگایا تھا جس کے پیسے نفیس کے پاس تھے۔ اس شخص نے کہا ’’سوال یہ ہے کہ پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بغیر نفیس کو کیوں گرفتار کیا اور ان ہندوؤں کو کیوں گرفتار نہیں کیا جنہوں نے بڑھئی کو بے دردی سے مارا پیٹا، مسلمانوں کو وہاں سے جانے کو کہا اور ان کی دکانیں بند کرا دیں؟‘‘

پرولا اور ہلدوانی کے واقعات سے قبل اس سال اپریل میں سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کریں اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کریں۔ اکتوبر 2022 میں سپریم کورٹ نے خاص طور پر اتر پردیش، اتراکھنڈ اور دہلی کو ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہرش مندر نے کہا کہ اتراکھنڈ کے متعلقہ لوگ ان سے ریاست میں مسلم مخالف نفرت کے بڑھتے بخار کے بارے میں طویل عرصے سے بات کر رہے ہیں لیکن انہوں نے اس ڈر سے میٹنگ ملتوی کر دی کہ ایسا کرنے سے وہ نشانہ بن جائیں گے اور ان کے لیے حالات مزید مشکل ہو جائیں گے۔


یہ خدشہ بے وجہ نہیں ہے۔ اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت خود مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ بارہا ’لو جہاد‘ اور ’لینڈ جہاد‘ جیسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور ’آبادی کے عدم توازن‘ اور ڈیموگرافی میں تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں بے دخلی، روزی روٹی کے نقصان اور ممکنہ تشدد کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ 47 سالہ دھامی نے جولائی 2021 میں سیاسی بحران کے بعد ریاستی حکومت کا چارج سنبھالا جو تیرتھ سنگھ راوت کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد ختم ہوا تھا۔ دھامی اگلے سال اسمبلی انتخابات ہار گئے لیکن ان کی پارٹی نے انہیں دوسری مدت کے لیے منتخب کیا۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنی پہلی میعاد کے چھ ماہ کے دوران بنائی گئی 'شبیہ' کے لیے انہیں مبارکباد دی۔ جب وہ دو ماہ بعد ضمنی انتخاب جیت گئے تو وزیر اعظم مودی نے انہیں مبارکباد دی۔

2017 میں، مودی نے یوگی آدتیہ ناتھ کا انتخاب کیا، جو مسلمانوں کے بارے میں بات کرتے وقت توہین آمیز اور پرتشدد زبان اتر سال 2017 میں وزیر اعظم مودی نے یوگی آدتیہ ناتھ کا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انتخاب کیا جو مسلمانوں کے بارے میں بولتے ہوئے توہین آمیز اور پرتشدد زبان استعمال کرنے کے لئے مشہور تھے۔ وہ گورکھپور سے پانچ بار رکن اسمبلی رہے اور ان کی شبیہ ایک انتہائی سخت ہندو قوم پرست رہنما کی تھی۔ انہوں نے ’لو جہاد‘ کے سازشی نظریہ کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

تبھی سے مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ کے وزرائے اعلیٰ، جو کبھی بھی فرقہ وارانہ طور پر اتر پردیش کی طرح تقسیم نہیں ہوئے، نے بھی خود کو آدتیہ ناتھ کی طرز پر ڈھالنا شروع کر دیا۔ انہوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین کو انتہائی سخت بنایا جس کا بین مذہبی شادیوں پر خاصا اثر پڑا۔ فوجداری مقدمات میں مجرم ثابت ہونے سے پہلے ہی مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ریاست میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔


دھامی کے وزیر اعلی بننے کے چھ ماہ بعد دسمبر میں ہندو سنت اور بابا مقدس شہر ہریدوار میں 'دھرم سنسد' کے لیے جمع ہوئے جہاں انہوں نے دو دن تک نفرت انگیز تقاریر کیں۔ انہوں نے ہندوؤں سے کہا کہ اقتصادی بائیکاٹ کافی نہیں ہے، انہیں 'صفائی مہم' کے لیے ہتھیار اٹھانا ہوں گے اور 'جان لینے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا!‘ کسی بھی مقرر کو اقلیتی برادری کے خلاف تشدد کی دھمکی دینے کا مجرم نہیں ٹھہرایا گیا اور ان میں سے کچھ تو اگلے دو سال تک نفرت انگیز تقاریر کرتے رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔