پکوڑا، ملازمت اور بھیک کی بحث میں مودی حکومت ان اعداد و شمار کو کیوں نہیں دیکھ رہی...؟

ملازمت اور بے روزگاری جیسے ایشوز پر بیان دینے سے پہلے بہتر ہوتا اگر وزیر اعظم نریندر مودی آئی ایل او اور مرکزی وزارت محنت کے اعداد و شمار کو دیکھ لیتے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

ہندوستان دنیا کے سب سے زیادہ بے روزگاروں والا ملک بن گیا ہے۔ ملک کی آبادی کا 11 فیصد یعنی تقریباً 12 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ ہر روز 550 ملازمتیں کم ہوئی ہیں اور خودروزگاری کے مواقع کم ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہیں بین الاقوامی مزدور تنظیم یعنی آئی ایل او اور مودی حکومت کی وزارت برائے محنت کے روزگار سروے کے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں بے روزگار کے ایشو پر پکوڑا والا بیان دیا تھا جس کے بعد بے روزگاری سے متعلق نئے سرے سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ بی جے پی سربراہ امت شاہ نے بھی راجیہ سبھا میں دی گئی اپنی پہلی تقریر میں پکوڑے کا تذکرہ کر دیا۔ صدر جمہوریہ کے خطاب پر اپنی بات رکھتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بے روزگاری کے اعداد و شمار کی بھی بات کی تھی۔

ان سبھی باتوں کے درمیان روزگار سے متعلق جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ روزگار کے ایشو پر ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ حال ہی میں آئی بین الاقوامی مزدور تنظیم کی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ سال 2019 آتے آتے ملک کے تین چوتھائی ملازمین اور پروفیشنلز پر ملازمت کا خطرہ منڈلانے لگے گا یا پھر انھیں ان کی قابلیت کے مطابق کام نہیں ملے گا۔

پکوڑا، ملازمت اور بھیک کی بحث میں مودی حکومت ان اعداد و شمار کو کیوں نہیں دیکھ رہی...؟
بے روزگاری کے اعداد

رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں جو تقریباً 53.4 کروڑ کام کرنے والے لوگ ہیں ان میں سے تقریباً 39.8 کروڑ لوگوں کو ان کی قابلیت کے مطابق نہ تو کام ملے گا نہ ملازمت۔ اس کے علاوہ ان پر ملازمت جانے کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ ویسے تو 2017-2019 کے درمیان بے روزگاری کی شرح 3.5 فیصد کے قریب رہنے کا اندازہ ہے، لیکن 15 سے 24 سال کی عمر والے طبقہ میں یہ فیصد بہت زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں 15 سے 24 سال والے نوجوانوں کا بے روزگاری فیصد 10.5 فیصد تھا جو 2019 آتے آتے 10.7 فیصد پر پہنچ سکتا ہے۔ خواتین کے معاملے میں تو حالت مزید خراب ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سال میں خواتین کی بے روزگاری شرح 8.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

پکوڑا، ملازمت اور بھیک کی بحث میں مودی حکومت ان اعداد و شمار کو کیوں نہیں دیکھ رہی...؟

آئی ایل او نے جو اندازہ لگایا ہے وہ مودی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سال 2018 میں ہندوستان میں بے روزگاروں کی تعداد 1.86 کروڑ رہنے کا امکان ہے۔ ساتھ ہی اس تعداد کے اگلے سال یعنی 2019 میں 1.89 کروڑ تک بڑھ جانے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان دنیا کے سب سے زیادہ بے روزگاروں کا ملک بن گیا ہے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی 11 فیصد آبادی بے روزگار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کام کرنے لائق ہیں، لیکن ان کے پاس روزگار نہیں ہے۔ اس فیصد کو اگر تعداد میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں تقریباً 12 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔

اس کے علاوہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں بے روزگاری کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یہ تو کہنا ہے بین الاقوامی ادارہ آئی ایل او کی رپورٹ کا۔ دوسری طرف مودی حکومت کی وزارت محنت کے سروے سے بھی یہی سامنے آیا ہے کہ بے روزگاری شرح گزشتہ پانچ سال میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں راجیہ سبھا میں جو تقریر کی اس میں کہا تھا کہ ’’میں ذرا کانگریس کے دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ بے روزگاری کے اعداد و شمار پورے ملک کے دیتے ہیں، لیکن روزگار کے اعداد و شمار بھی پورے ملک کا دےدیجیے۔ روزگار اور بے روزگاری کے نام پر ملک کو گمراہ نہ کریں۔ آج متوسط طبقہ ملازمت کی بھیک نہیں مانگتا۔ آج آئی اے ایس کے بچے بھی اسٹارٹ اَپ شروع کر رہے ہیں۔‘‘ لیکن وزیر اعظم نے اگر اپنی ہی حکومت کی وزارت محنت اور بین الاقوامی ادارہ آئی ایل او کی رپورٹ دیکھی ہوتی تو احساس ہوتا ہے کہ روزگار اور ملازمتوں کے معاملے میں حالات کتنے سنگین ہیں۔ اس حالت سے نکلنے کے لیے مناسب قدم اٹھانے کی ضرورت ہے نہ کہ کوئی کہانی سنا کر یا جملے تیار کر کے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔