سدھو کے خلاف ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ .. سہیل انجم

ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ کرتارپور کوریڈور دونوں ملکوں کے بہتر مستقبل کا راستہ ہموار کرے گا ارو دوسری طرف حکومت اور بی جے پی لیڈران سدھو کی امن حامی سعی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

کانگریس رہنما اور پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو نے پہلے عمران خان کی تقریب حلف برداری اور پھر کرتارپور کاریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کیا کی، سنگھیوں اور بھاجپائیوں کے پیٹ میں درد اٹھنے لگا۔انھوں نے پہلی تقریب میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جو جھپی دی تھی وہ بھی ان لوگوں کو شدید گراں گزری ہے۔ پہلے بھی بی جے پی لیڈروں کی جانب سے ان کے خلاف بیانات کا سلسلہ چل پڑا تھا اور اب ایک بار پھر یہ سلسلہ دراز ہو گیا ہے۔ اس بار تو سدھو اور کانگریس مخالفین کو ایک شاندار بہانہ ہاتھ آ گیا۔ بہانہ بنا ایک خالصتانی لیڈر گوپال چاولہ کے ساتھ سدھو کی ایک تصویر کی اشاعت۔

کرتارپور صاحب کاریڈور کا کھلنا اور پہلے ہندوستان کی جانب سے اور پھر پاکستان کی جانب سے کاریڈور کی تعمیر کا آغاز یقیناً ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ہندوستان کے سکھ 70 برسوں سے یہ خواہش اپنے دلوں میں پالے ہوئے تھے کہ انھیں سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک دیو کی آخری آرام گاہ کرتار پور صاحب میں واقع گورو دوارے تک بلا روک ٹوک رسائی حاصل ہو جائے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں جب ان کے دوست نوجوت سنگھ سدھو نے شرکت کی تو قمر جاوید باجوہ نے ان کو بتایا تھا کہ پاکستان کرتارپور کاریڈور کھولنے جا رہا ہے۔ جب سدھو نے اس سلسلے میں بیان دیا تو ان کے بیان پر ان کے مخالفین کو یقین نہیں آیا۔

اسی درمیان ہندوستان کی مرکزی کابینہ نے ہندوستانی سرحد کے اندر ضلع گورداس پور میں واقع ڈیرہ بابا نانک سے سرحد تک کاریڈور کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور چند روز کے اندر نائب صدر ایم وینکیا نائڈو نے اس کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔ اب عمران خان نے اپنے ملک کی سرحد کے اندر سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر اعلان کیا کہ سکھ یاتریوں کو بغیر ویزا کے کرتارپور کے درشن کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ہندوستانی سرحد سے اس کا فاصلہ چند کلومیٹر کا ہے۔ لہٰذا یہ اعلان کیا گیا کہ سکھ یاتری درشن کرکے اسی روز لوٹ جائیں۔

یقیناً یہ ایک یادگار واقعہ ہے۔ یہ ایسا واقعہ بھی ہے کہ اس کے سہارے دونوں ملکوں میں دوستانہ تعلقات کی راہ ہموار کی جا سکتی تھی۔ لیکن برا ہو سیاست کا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ اس کو دوسرا رنگ دے دیا گیا اور نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف ایک محاذ کھول دیا گیا۔ اگر حکومت چاہتی تو پاکستان کے ساتھ مشروط مذاکرات کا آغاز کر سکتی تھی۔ ویسے یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستانی فوج کی جانب سے سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزی اور دراندازوں کو ہندوستانی سرحد کے اندر داخل کرنے کے واقعات جاری ہیں۔ پھر بھی حکومت یہ کہہ سکتی تھی کہ فلاں فلاں شرائط پوری کرو تو بات چیت کا سلسلہ چل پڑے گا۔

در اصل حکومت کے ذمہ داران ہوں یا بی جے پی کے یا پھر آر ایس ایس کے، ان کو اس بات کا اندیشہ کھائے جا رہا تھا کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو سارا کریڈٹ سدھو کو چلا جائے گا۔ سدھو جب بی جے پی میں تھے تو بہت بڑے دیش بھکت تھے۔ لیکن اب جبکہ وہ کانگریس میں ہیں تو دیش دروہی ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے ایجنٹ ہو گئے ہیں۔ چاولہ کے ساتھ ان کی فوٹو کے منظر عام پر آنے کے بعد تو ان کو پاکستان کا ایجنٹ بتانے میں خاصی شدت آگئی ہے۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی تو یہاں تک مطالبہ کر رہے ہیں کہ این آئی اے سدھو کی جانچ کرے اور ان کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جائے۔

جہاں تک چاولہ کے ساتھ ان کی تصویر کی بات ہے تو سدھو نے بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان میں ان کی ہزاروں تصویریں کھینچی گئی ہیں۔ وہ سب کو تو نہیں جانتے۔ انھیں نہیں معلوم کہ چاولہ کون ہے۔ ان کی بات بالکل درست ہے۔ لیکن ہر معاملے میں کانگریس صدر راہل گاندھی کو گھسیٹنے کی بھاجپائیوں کی بری عادت کو کیا جائے کہ اب وہ اس بارے میں راہل سے وضاحت طلب کر رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ ایک طرف تو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی دیورا برلن کے انہدام کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کرتارپور کاریڈور دونوں ملکوں کے بہتر مستقبل کا راستہ ہموار کرے گا ارو دوسری طرف حکومت اور بی جے پی لیڈران سدھو کی امن حامی سعی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

حالانکہ سدھو نے بھی محض دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات کے پیش نظر ہی یہ قدم اٹھایا تھا۔ لیکن ان کا یہ قدم کانگریس مخالفین کو برا لگنے لگا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے جس کا ذکر کیا گیا یعنی حکومت نہیں چاہتی کہ اس تاریخی لمحے کا کریڈٹ بی جے پی کے بجائے کانگریس کے کسی لیڈر کو جائے۔ اگر عمران خان نے سدھو کے بجائے کسی بی جے پی لیڈر کو بلایا ہوتا اور وہ آو بھگت کی ہوتی جو سدھو کی ہوئی تو حکومت اور بی جے پی لیڈروں کا رویہ کچھ الگ ہوتا۔ یا پھر اگر سدھو کانگریس کے بجائے بی جے پی ہی میں رہے ہوتے تب بھی یہ ہنگامہ آرائی نہیں کی جاتی بلکہ کرتارپور کاریڈور کھولنے کا سہرا اپنے سرباندھنے کی کوشش کی جاتی۔

ہندوستان اور پاکستان دو ایسے ہمسائے ہیں جن کے تعلقات میں گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ والی کیفیت ہے۔ سابقہ یو پی اے حکومت میں پاکستان کے ساتھ رشتوں کو استوار کرنے کی کافی کوششیں ہوئی تھیں۔ لیکن موجودہ حکومت نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ در اصل اس حکومت کی نہ تو پاکستان کے تعلق سے کوئی ٹھوس پالیسی ہے اور نہ ہی کشمیر کے تعلق سے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ممکنہ ملاقات کا اعلان کرکے اگلے ہی روز اسے مسترد نہ کر دیا جاتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر اور بالخصوص پڑوسی ملکوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور خطے میں ایک خوشگوار ماحول کے قیام کی سنجیدہ کوشش کرے۔

اس کے ساتھ ہی اسے ہر معاملے کو سیاست اور ووٹ بینک کے نقطہ نظر سے دیکھنا بھی بند کر دینا چاہیے۔ ہر معاملے کو اس پیمانے پر نہیں تولا جا سکتا۔ سیاست اپنی جگہ پر اور انسانی و مذہبی معاملات اپنی جگہ پر۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Dec 2018, 5:09 PM