’آپ کیوں چاہتے ہیں کہ مکمل فنڈ آپ کی جیب میں جائے؟‘، سپریم کورٹ کا بانکے بہاری مندر انتظامیہ کمیٹی سے تلخ سوال
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’مندر ذاتی ہو سکتا ہے، لیکن دیوتا سب کے ہیں۔ وہاں لاکھوں عقیدت مند آتے ہیں۔ مندر کا فنڈ عقیدت مندوں کی سہولت اور حفاظت سے متعلق ترقیاتی کاموں میں کیوں نہیں استعمال ہو سکتا؟‘‘

وِرنداون کے بانکے بہاری مندر کے انتظام و انصرام اور اس کے آس پاس کے علاقے کی ترقی کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی صدارت میں کمیٹی تشکیل دینے کا اشارہ دیا ہے۔ سماعت 5 اگست کی صبح 10:30 بجے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ مندر انتظامیہ کمیٹی نے مندر کے انتظام کے سلسلے میں ریاستی حکومت کے آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے ایک عرضی داخل کی ہے۔ کمیٹی نے 15 مئی کو آئے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بھی مخالفت کی ہے، جس میں ریاستی حکومت کو بانکے بہاری کوریڈور بنانے کے لیے مندر کے فنڈ کے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
عرضی گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل شیام دیوان نے کہا کہ بانکے بہاری مندر ایک نِجی مندر ہے۔ اس میں مذہبی سرگرمیوں اور انتظام کو لے کر 2 فریقوں میں تنازعہ تھا۔ ریاستی حکومت نے بغیر کسی اختیار کے اس میں مداخلت کی۔ وہ معاملہ کو سپریم کورٹ لے آئی اور کوریڈور کے لیے مندر کے فنڈز استعمال کرنے کا حکم حاصل کر لیا۔ اس کے بعد بہت جلد ایک آرڈیننس بھی جاری کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مندر قائم کرنے والے اور صدیوں سے اس کے انتظام پر مامور گوسوامی انتظام سے باہر ہو گئے۔
سماعت کی شروعات میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جویمالیہ باغچی کی بنچ نے مندر کمیٹی سے کچھ تلخ سوال پوچھے۔ عدالت نے کہا کہ مندر نِجی ہو سکتا ہے، لیکن دیوتا سب کے ہیں۔ وہاں لاکھوں عقیدت مند آتے ہیں۔ مندر کا فنڈ عقیدت مندوں کی سہولت اور حفاظت سے متعلق ترقیاتی کاموں میں کیوں نہیں استعمال ہو سکتا؟ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ مکمل فنڈ آپ کی جیب میں ہی جائے؟ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ عرضی گزار کو ریاستی حکومت کے قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے۔ عدالت کے سخت سوالوں کے جواب میں دیوان نے کہا کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ ہمیں سنے بغیر ایسا حکم سپریم کورٹ سے کیسا آیا؟ معاملہ کچھ اور تھا، لیکن اچانک حکم آ گیا کہ مندر کا فنڈ کوریڈور بنانے کے لیے لیا جائے۔‘‘
واضح ہو کہ تقریباً 50 منٹ کی سماعت کے بعد ججوں نے اس بات کا اشارہ دیا کہ 15 مئی کے حکم کو واپس لیا جا سکتا ہے۔ فی الحال مندر کے انتظام کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی صدارت میں کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ اس میں ضلع مجسٹریٹ کو بھی رکھا جائے گا۔ علاقے کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو بھی اس کے آس پاس کی ترقی میں مدد لی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ مذہبی سیاحت کو فروغ دینا چاہیے، اس کے لیے مناسب سہولیات کی ترقی ضروری ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔