ہریانہ کے میوات میں 31 سالہ امن کو کس نے لگائی آگ؟ ہر انگلی اٹھ رہی کھٹر حکومت کی طرف

نوح کا منظر ہریانہ کی کھٹر حکومت کی ناکامی کا دستاویز ہے، لوگ خوفزدہ ہیں کہ میوات کے ساتھ پورے جنوبی ہریانہ کو اپنے آغوش میں لے چکے تشدد کی آگ آخر کہاں جا کر رکے گی؟

<div class="paragraphs"><p>نوح میں تشدد کا منظر</p></div>

نوح میں تشدد کا منظر

user

دھیریندر اوستھی

ہریانہ کے میوات (نوح) میں 31 سال سے قائم امن کو آخر آگ کس نے لگائی؟ ہر انگلی کھٹر حکومت کی طرف ہی اٹھ رہی ہے۔ میوات میں کشیدگی کی بات، جو ایک معمولی شخص کو بھی پتہ تھی وہ بات بھاری بھرکم خفیہ نظام کے باوجود حکومت کو نہیں پتہ تھی؟ ہریانہ میں یہ کوئی ماننے کو لیے تیار نہیں ہے۔ میوات کے ساتھ ہی پورے جنوبی ہریانہ کو اب اپنے آغوش میں لے چکے تشدد کی یہ آگ آخر کہاں جا کر رکے گی؟ لوگ یہ سوچ کر ہی خوفزدہ ہیں۔ 1991 میں رام مندر تحریک کے وقت نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد تین دہائی سے میوات پرامن تھا۔

دہلی کی ناک تلے میوات میں بی جے پی کی ڈبل انجن حکومت کے ہانپنے کی کہانی میں پینچ ہی پینچ ہیں۔ نوح کا منظر حکومت کی ناکامی کا دستاویز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نوح میں 133 گاڑیوں کو پھونکا گیا ہے۔ اب تک 5 لوگوں کی موت ہو چکی ہے، جس میں دو ہوم گارڈ اور 3 سویلین ہیں۔ نوح میں دو دن کے لیے کرفیو لگایا گیا ہے۔ انٹرنیٹ بند ہے۔ پولیس نے تشدد پر منگل کی دوپہر تک 11 ایف آئی آر درج کی ہے۔ پیرا ملٹری فورس کے جوان گشت کر رہے ہیں۔ ایئرفورس کو بھی ویٹنگ میں رکھا گیا ہے، جس سے ضرورت پڑنے پر مزید سیکورٹی فورسز کو ایئرڈراپ کیا جا سکے۔


لیکن سوال یہ ہے کہ 31 جولائی کو دوپہر بعد تشدد بھڑکنے سے پہلے تک کیا حکومت سوئی ہوئی تھی، جبکہ ایک دن پہلے ہی بھیوانی میں ہوئے ناصر-جنید قتل معاملہ میں مطلوب بجرنگ دل علاقائی گئو رکشا چیف مونو مانیسر نے میوات کی مہا ریلی میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس نے ویڈیو جاری کر کہا تھا کہ 31 جولائی کو میوات برج منڈل یاترا میں پوری ٹیم کے ساتھ خود شامل رہے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ مونو مانیسر کے اس اعلان کے بعد سے ہی اس تشدد کی اسکرپٹ لکھ دی گئی تھی، لیکن کھٹر حکومت نہیں جاگی۔ یہاں تک کہ نوح کا ایس پی تک تعطیل پر تھا۔

جب میوات جل اٹھا تو حکومت کے بیان آنے شروع ہوئے جو مزید سوال کھڑے کرتے ہیں۔ واقعہ کے بعد آج یکم اگست کو وزیر داخلہ انل وج کا بیان آیا کہ سی آئی ڈی نے انھیں اس طرح کے تشدد کے اندیشہ کا کوئی اِنپٹ نہیں دیا تھا۔ لیکن سی آئی ڈی تو وزیر اعلیٰ کو رپورٹ کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر اس نے وزیر اعلیٰ کو اِنپٹ دیا ہوگا۔ اگر سی آئی ڈی نے وزیر اعلیٰ کو بھی اِنپٹ نہیں دیا تھا تو سوال مزید گہرے ہیں۔


حادثہ کو لے کر یکم اگست کو دوپہر میں چنڈی گڑھ واقع وزیر اعلیٰ رہائش سَنت کبیر کٹیر میں طلب کی گئی ایمرجنسی میٹنگ میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں بتایا جا رہا ہے۔ اس میٹنگ میں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے ساتھ وزیر داخلہ انل وج اور اعلیٰ افسران موجود تھے۔ خبروں پر یقین کریں تو وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ انل وج کے درمیان کسی بات کو لے کر عدم اتفاق تھا۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ رہائش سے نکلے وزیر داخلہ کے تیور دیکھ کر اس بات کو مزید قوت ملتی ہے۔ انل وج کو میڈیا فرینڈلی مانا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ رہائش کے باہر اس وقت میٹنگ کے نتائج کو جاننے کے لیے پورا میڈیا موجود تھا، لیکن اپنے مزاج کے برعکس انل وج بغیر میڈیا کی طرف دیکھے کار میں سیدھے ہی نکل گئے۔ پھر وزیر اعلیٰ کا رسمی بیان سامنے آیا۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نوح میں جو کچھ بھی ہوا وہ افسوسناک ہے۔ ایک سماجی یاترا جو ہر سال نکلتی ہے، اس کے اوپر کچھ لوگوں نے حملہ کیا اور پولیس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ منصوبہ بند اور سازشی طریقے سے یاترا کو متاثر کیا گیا، جو بڑی سازش کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور آگ زنی کے واقعات کچھ مقامات پر سامنے آئے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 70 لوگوں کو ابھی تک حراست میں لیا گیا ہے اور 5 لوگوں کی موت کی ابھی تک اطلاع ہے۔


وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نوح سے باہر کے لوگ، جو اس حادثہ میں شامل تھے، ان کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کسی بھی شورش پسند کو بخشا نہیں جائے گا۔ لیکن وزیر اعلیٰ کے بیان میں کوئی مرہم نہیں تھا۔ وزیر اعلیٰ کھٹر کے اس بیان کے بعد گروگرام اور پلول کے نئے علاقوں میں پھیلا تشدد لوگوں میں کوف پیدا کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ گروگرام کے مال تک بند کروا دینے کی خبر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔