’بابری مسجد سونپنے کی بات کرنے کا حق کس نے دیا؟‘

’مسلم دانشوران‘ کے بیان پر مسلمان چراغ پا ہیں اور وہ سوال کر رہا ہے کہ ان ’دانشوران ‘ کو کسنے یہ حق دیا کہ وہ بابری مسجد کو سونپنے کی بات کریں!

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

قومی آوازبیورو

جیسے جیسے بابری مسجد - رام جنم بھومی تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کی تاریخ قریب آ رہی ہے ویسے ویسے مسلمانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ جہاں دارالعلوم ندوۃ العلماءکے استاذ مولانا سلمان ندوی کے حامی اور مخالف طلباء آپس میں بابری مسجد پر مولانا کے موقف کو لے کر نبرد آزما ہو رہے ہیں وہیں مسلم دانشوروں کا ایک گروپ لکھنؤ میں میٹنگ کر کے مسلمانوں کو مشورہ دے رہا ہے کہ مسلمانوں کو رام جنم بھومی احاطہ میں رام مندر تعمیر کرنے کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔

واضح رہے کہ جمعرات کو لکھنؤ کے ایک عالیشان ہوٹل میں مسلم دانشوروں کی ایک میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس میں ایک بیان جاری کر کے مشورہ دیا گیا کہ ایودھیا معاملہ پر عدالت کے باہر کوئی حل نکالنا چاہئے۔ مسلم دانشوران، جن میں سابق آئی اے ایس افسر انیس انصاری، سابق آئی پی ایس افسر نثار احمد، اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) ضمیر الدین شاہ، پدم شری منصور احمد اور اتر پردیش کے سابق وزیر معید احمد شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’اگر مسلمان فریق سپریم کورٹ میں کیس جیت جاتا ہے تو بھی مسلمانوں کو رام مندر تعمیر کرنے کے لئے ہندو فریق کو جگہ دے دینی چاہئے ‘‘۔

’مسلم دانشوران‘ کے اس بیان پر کہ مسلمانوں کو ایودھیا تنازعہ کا فیصلہ اپنے حق میں آنے کے باوجود زمین دوسرے فریق کو سونپ دینا چاہئے، مسلم طبقہ چراغ پا ہے اور وہ سوال کر رہا ہے کہ ان ’دانشوران ‘ کو کسنے یہ حق دیا کہ وہ بابری مسجد کو سونپنے کی بات کریں۔

یہ بیان مسلم دانشوروں کی تنظیم ’انڈین مسلم برائے امن ‘ کی طرف سے دیا گیا جس کی میٹنگ لکھنؤ کے ہوٹل میں ہوئی تھی۔ اس بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ حکومت دیگر مسلم مذہبی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنائے اور اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ ہندو فریق اس کے بعد کسی بھی مسلم مذہبی مقام کے مالکانہ حقوق پر سوال نہ اٹھائیں۔

واضح رہے کہ لکھنؤ کے کچھ لوگوں اور ایکٹیوسٹ نے مل کر یہ تنظیم قائم کی ہے اور ضمیر الدین شاہ جیسے لوگوں کے اس میں شامل ہونے کی وجہ سے کوئی اس کی نیت پر بھی شک نہیں کر رہا، اور اس بات سے بھی انکار کر رہے ہیں کہ یہ قدم حکومت کی ایما پر اٹھایا جا رہا ہے۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ کچھ لوگ ان افراد کے مسلم دانشور ہونے پر سوال اٹھا رہے ہیں، حتیٰ کہ کچھ لوگ یہ بھی کہہ ہے ہیں کہ چند لوگ اچانک سامنے آ کر اپنا فیصلہ سناتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب عدالت کا فیصلہ آنے میں ایک ماہ کے قریب رہ گیا ہے اور عدالت نے اپنی کارروائی لگ بھگ پوری کر لی ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس وقت ان سب باتوں کا کیا مطلب ہے۔ اس تنظیم کے تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن کمال فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’ اس میں امت کے کافی اہم افراد شامل ہیں اور انہوں نے جو بھی سوچا ہوگا وہ امت کی خیر خواہی کے لئے ہی سوچا ہوگا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مخالف فریق کسی بھی طرح کی مصالحت کی بات نہیں کر رہا، ان کو تو مسجد کی جگہ چاہیے اور وہ بھی بغیر کوئی بات کئے۔ ایسی صورت میں مسلمان اپنی مرضی سے مسجد کیسے دے سکتے ہیں اور سپریم کورٹ میں جو مسلمانوں کا موقف رہا ہے وہ ساری دنیا جانتی ہے اور دوسرے فریق کے موقف سے بھی سبھی بخوبی واقف ہیں۔‘‘


واضح رہے کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے ذریعہ بھی ثالثی کے لئے ایک ٹیم بنائی گئی تھی جس نے اپنی کوشش کے بعد ہاتھ کھڑے کر دیے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مرتبہ اس تعلق سے کوششیں ہو چکی ہیں لیکن کبھی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ یہ بات ضرور ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس تنازعہ کا مستقل حل چاہتی ہے اور اس کے لئے مسلمان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ عدالت کے ہر فیصلہ کو ماننے کے لئے تیار ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Oct 2019, 6:33 PM