مغل دور کے ہندوستان میں سیاست اور موسیقی

فعال راج، کاج اور لچھے دار فارسی کاجوا شاہی گردن سےاترا تو پنجاب سے متھلا تک اور کشمیر سے ستارا تک جاگیردارانہ سماج کا دل بے جھجک عوامی زبان کے چھندوں اور لوک گیتوں کے کسے ہوئے پکے پن کا مزہ لینے لگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

مسلم حکمرانی کے 600 سالوں میں ایک ہم آہنگ ثقافت نے عوامی زبان اور عوامی سازوں کی پکار کو شاستریہ جڑوں سے جوڑ دیا۔ یہ میل اس قدر پھلا پھولا کہ نادرشاہ لوٹ پاٹ کے دوران بھی بلا بلا کر خیالیوں اور بڑی گونہاریوں کو سنتا اور مسحور ہوتا رہا۔ اورنگ زیب جیسا شدت پسند بادشاہ بھی برج بھاکھا میں کچھ شاعری کر گیا۔ اس کے وقت میں ہندوستان آئے یوروپی سیاح برنیر کے مطابق حکمراں بننے کے بعد اورنگ زیب کو عوامی زبان کی اہمیت سمجھ آنے لگی تھی اور اس نے اپنے مذہبی استاد سے کہا کہ (قومی زبان فارسی کی جگہ) لوگوں کے لیے اپنی مادری زبان میں عبادت یا دعا کرنا بہتر ہے۔ اس نے اپنے بیٹے اعظم شاہ کو باقاعدہ استاد رکھ کر برج بھاشا کی تعلیم دی۔ خود بادشاہ نے اس زبان میں چھند اور محاورے سمیت کچھ بند لکھے ہیں جن میں اس کا شجرہ موجود ہے:

چھتر چھبی چھاجے بِراجے ہمایوں تخت

بیٹھو چاروں چک جیتی آیو دلّی ور

نایک پورن تیرو بکھان کرت بابر سُت

تاکو سُت ہماؤں اکبر سبل نر

اکبر سُت جہانگیر تاکو شاہجہاں

تاکو اورنگ زیب بھیو ہے بھو پَر

اورنگ زیب کے دربار میں ہندی کے ایک شاعر ورِند بھی تھے۔ اورنگ زیب کی موت کے دس گیارہ سال بعد تک اردو شاعری بھی دربار میں قدم رکھ چکی تھی۔ آخری مغل حکمرانوں میں سے دو حکمراں کافی مدت تک گدی نشیں رہے، ایک محمد شاہ ’رنگیلے‘ (1748-1719)، اور دوسرے شاہ عالم (1806-1759) دونوں ہی ہندوستان پر قابض ہو چکے انگریزوں کی بالادستی کو قبول کر تاریخی سیاسی ہلچلوں کے درمیان شتر مرغ بنے تاریخ سے فرار ہونے کو مجبور تھے۔ فعال راج کاج اور مشکل و لچھے دار فارسی کا جوا شاہی گردن سے اترا تو پنجاب سے متھلا تک اور کشمیر سے ستارا تک جاگیردارانہ اور اشرافیہ سماج کا دل بے جھجک عوامی زبان کے چھندوں، دوہا، گھناچھری، کوِت، سویّا اور لوک گیتوں کے کسے ہوئے پکے پن کا مزہ لینے لگا۔ ان کی آزاد خیال سرپرستی کا فائدہ لے کر برج، اودھی اور اردو سے لیس فنکار اور شاعر لوک سنگیت کو مارگی سنگیت اور شاعری کو لوک لَے سے مضبوط ادب کی طرف تیزی سے لے چلے۔ فارسی ثقافت کی جکڑبندیوں سے آزاد بولیاں گوشے گوشے میں ہاتھ پیر پھینکنے اور تمام عوامی محاورے، کہاوتیں اور تمثیلیں بدل کر فنکاروں کے تجربہ گاہوں کو دینے لگیں۔ چھاؤنی، بازار اور زنان خانہ کے راستے حرم کی عورتوں اور ان کے درمیان رہنے والے روہیل کھنڈ، اودھ، بنارس، پٹنہ، دربھنگہ وغیرہ کے جاگیردار سرداروں، شراب نوشی کرنے والوں کا یوں بھی اس بولی سے، جسے کوئی بھاکھا تو کوئی ہندوی یا اردو کہتا، گہری روحانیت اور سمجھ کا ناطہ بنا ہوا تھا۔ گھنانند، سدارنگ ادارنگ کی برج بھاشا کے کسک مسک بھرے اور چھند راگ داری بندشیں دیکھیے۔ وہ یکدم ٹھیٹھ ہیں، نہ سنسکرت کی قرض دار نہ فارسی کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔