سیکولرزم تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ: یوگی

تصویرنوجیون
تصویرنوجیون
user

تسلیم خان

آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ کیا ہے؟جمہوریت یا پھر مودی حکومت کا ’رام راج‘ سے موازنہ۔ اور یہ بات جب ملک کی سب سے بڑی ریاست کا وزیر اعلیٰ کہے تو اس کا مطلب صرف اور صرف جھوٹ ہی ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ جب کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ یہ کہے کہ وہ جمہوری نہیں ہو سکتا۔ اور اگر یہ وزیر اعلیٰ ملک کی سب سے بڑی ریاست کا ہو، جہاں تقریباً 20 فیصد آبادی اقلیتوں کی ہو، تو خطرہ مزید سنگین نظر آنے لگتا ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ کچھ بھی ہو سکتے ہیں، جمہوری نہیں۔

یوں تو کٹر ہندوتوا، نام نہاد راشٹرواد، گئو رکشا اور مسلم-اقلیت مخالفت کی سیاست سے نمودار ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ سے مذہبی ہم آہنگی کی امید کرنا ہی بے معنی ہے۔ لیکن جب وہ ایک آئینی عہدہ پر بیٹھے ہیں تو ان کے اس بیان کے مطالب خوفزدہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا کہا۔

چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور میں ایک روزنامہ کی تقریب میں یوگی آدتیہ ناتھ نے صاف لفظوں میں کہا کہ سیکولر یعنی جمہوریت لفظ ’سب سے بڑا جھوٹ‘ ہے جو آزادی کے وقت سے بولا جا رہا ہے اور اس نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ تقریب میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں سب سے بڑا جھوٹ جمہوریت لفظ ہے۔ عوام سےاور ہندوستان کے لوگوں سے ان لوگوں کو معافی مانگنی چاہیے جنھوں نے اس لفظ کو جنم دیا اور جو یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اب یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ یہاں یوگی آدتیہ ناتھ آئین سازوں کو معافی مانگنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے اس تقریب میں مزید کہا کہ ’’کوئی نظام جمہوری نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی ہم سے کہے گا کہ حکمرانی اُس طریقہ کار سے چلنا چاہیے تو ایسے نہیں چلا سکتا۔ یو پی کے اندر دیکھوں گا تو 22 کروڑ لوگوں کو دیکھنا ہوگا۔ میں ان لوگوں کی حفاظت کے تئیں، ان کے جذبات کے تئیں جوابدہ ہوں۔ لیکن ایک فرقہ کو نظر انداز کرنے کے لیے بھی نہیں بیٹھا ہوں۔ میں ’پنتھ نرپیکش‘ ہوں لیکن ’دھرم نرپیکش‘ نہیں ہو سکتا۔‘‘

یوگی اتنا کہہ کر بھی خاموش نہیں ہوئے۔ انھوں نے تاریخ کی بات بھی چھیڑ دی۔ انھوں نے کہا کہ ’’تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ملک سے غداری کی مانند بڑا جرم ہے۔‘‘ اس کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا کہ یورپ میں ’پاکی‘ لفظ سب سے بڑی گالی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یوروپ میں سب سے بڑی بے عزتی والا جو لفظ ہے وہ ’پاکی‘ ہے۔ پاکستان لفظ گالی کا مترادف بن گیا ہے۔‘‘

یوگی آدتیہ ناتھ کے ان الفاظ کے واضح معنی یہی ہیں کہ وہ نہ صرف ملک کے جمہوری ڈھانچے کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں بلکہ آئین کی اصل روح کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں یہ جاننا لازمی ہے کہ ہمارے آئین کے مقدمہ یعنی پیش لفظ میں ہی لکھ دیا گیا ہے کہ ہندوستان جمہوری اور مذہبی ہم آہنگی والا ملک ہے۔

آئین سازوں نے آئین کا پیش لفظ یوں ہی نہیں لکھا تھا، انھوں نے اس بات پر گہرائی سے غور کیا تھا کہ کیا جدید دور میں مذہب کی بنیاد پر ریاست یا حکومت کا مناسب طریقے سے چلانا ممکن ہے؟ پارلیمنٹ میں اس موضوع پر بحث بھی ہوئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر حکومت چلانے کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے ہندوستانی آئین میں یہ سہولت رکھی گئی ہے کہ ریاست کا نظام کسی مذہب کی بنیاد پر نہیں چلایا جائے گا۔ اتنا ہی نہیں، توجہ دینے والی بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب، فرقہ، زبان، ثقافت، رہن سہن، روایتوں اور رسوم و رواج اتنی بڑی تعداد میں موجود ہوں، وہاں ان میں سے کسی ایک کو اگر حکومت فروغ دیتی ہے تو اس کے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو ملک کی رنگا رنگی کمزوری لگ سکتی ہے، یا کچھ لوگ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی سازش بھی کر سکتے ہیں، یا کرتے رہے ہیں، اسی لیے آئین سازوں نے اس رنگا رنگی کو ہی ملک کے اتحاد کی طاقت بنانے کا فارمولہ بنایا تھا۔ اسی طاقت کا نام مذہبی ہم آہنگی یا سیکولرزم ہے۔

یہی سبب ہے کہ ہندوستانی آئین میں ہندوستان کو جمہوری بتایا گیا ہے اور اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت یا حکومتیں، جسے آئین میں اسٹیٹ کہا جاتا ہے، حکمرانی میں مذہب کو اہمیت نہیں دیں گی۔ مذہب اپنی جگہ رہے گا، مذہبی ادارے بھی رہیں گے، مذہب سے متعلق نظریات بھی رہیں گی اور مذہبی روایات اور رسوم و رواج بھی چلتے رہیں گے۔ حکومت نہ تو کسی مذہب کو اختیار کرے گی اور نہ ہی کسی مذہب کی مخالفت کرے گی۔

اس طرح آئین نے صاف کر دیا ہے کہ حکومت کو مذہب کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ملک کے ہر شہری کو اس کا اپنا مذہب اور عقیدہ اختیار کرنے کی آزادی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری یہ ضرور ہے کہ اس محاذ پر کوئی کسی سے زور زبردستی نہ کرے۔ جب آئین میں جمہوریت کو واضح لفظوں میں متعارف کرا دیا گیا ہے تو پھر اس پر بحث کیوں؟ اور جب ایک آئینی عہدہ پر بیٹھا شخص ایسے بیانات دیتا ہے تو اس سے ’غلط سوچ‘ کی بو آتی ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Nov 2017, 4:50 PM