ائیر اسٹرائیک: پارلیمانی کمیٹی نے مہلوکین کی تعداد پوچھی تو خارجہ سکریٹری نے کہا ’نہیں معلوم‘

پاکستان کے بالاکوٹ میں جیش محمد کے ٹھکانوں پر ہندوستانی بم اندازی میں کتنے دہشت گرد مارے گئے، اس پر پس و پیش کی حالت اب بھی برقرار ہے۔ سرکاری طور پر اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بھی بیان نہیں دیا گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

جمعرات، یکم مارچ 2019 کو جب خارجہ سکریٹری وجے گوکھلے خارجی معاملوں کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ بالاکوٹ میں ہندوستانی ائیر اسٹرائیک میں کتنے دہشت گرد مارے گئے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا "بالاکوٹ میں جیش محمد کے ٹھکانوں پر 26 فروری کی صبح ہندوستانی فضائیہ کے حملے میں مارے گئے لوگوں کی تعداد کی ہم فی الحال جانچ کر رہے ہیں۔ ابھی تک ہمیں مکمل معلومات حاصل نہیں ہوئی ہیں۔"

خارجہ سکریٹری کا یہ بیان ان کے اس پریس بیان سے بالکل برعکس نظر آتا ہے جو انھوں نے 26 فروری کو میڈیا کے سامنے دیا تھا۔ انھوں نے اس وقت کہا تھا کہ "ائیر اسٹرائیک میں جیش کے دہشت گرد، ان کے ٹرینر، سینئر کمانڈر اور خودکش حملوں کے لیے تیار کیے جا رہے جہادی گروپ کے کافی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں۔" خارجہ سکریٹری کے اس بیان کے بعد ملک کے نیوز چینلوں نے بالاکوٹ حملے میں مارے گئے لوگوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتائی۔ یہ تعداد 300 سے 650 کے درمیان تھی۔ لیکن کچھ ہی وقت کے بعد جب پاکستان نے ہندوستانی ہوائی حملے میں کسی بھی موت سے انکار کیا تو ہندوستان کو ایک طرح کی شرمندگی سے دو چار ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ بی بی سی، رائٹر، نیو یارک ٹائمز، دی گارڈین اور الجزیرہ جیسے بین الاقوامی میڈیا نے بھی یہی خبریں دیں کہ حملے میں صرف ایک شخص زخمی ہوا۔ رہی سہی کسر پاکستان نے بھی جمعہ کو پوری کر دی جب اس نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ میں ہندستان کے خلاف ایکو ٹیررزم (ماحولیاتی دہشت گردی) کی شکایت درج کرائے گا کیونکہ ہندوستانی حملے میں چیڑ کے 15 درخت برباد ہو گئے ہیں۔

بالاکوٹ حملے میں مارے گئے لوگوں کی تعداد کے بارے میں جب 28 فروری کو ائیر وائس مارشل آر جی کے کپور سے سیدھا سوال پوچھا گیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ "اس بارے میں فیصلہ افسر کریں گے کہ اس کے ثبوت میڈیا کو دیئے جانے ہیں یا نہیں۔" اسی طرح وجے گوکھلے نے بھی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے کوئی تعداد بتانے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے صاف کہا کہ "وہ اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔" انھوں نے کہا کہ یہ آپریشن خفیہ جانکاری کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ پارلیمانی کمیٹی کے کچھ اراکین کے مطابق گوکھلے نے کہا کہ اس حملے میں مارے گئے لوگوں کی تعداد صرف وزارت دفاع ہی بتا سکتی ہے۔

گوکھلے سے جب یہ پوچھا گیا کہ بین الاقوامی میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان کے حملے میں کوئی نہیں مارا گیا، تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گوکھلے کے زیادہ تر جواب غیر واضح سے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کر کے پہلے سے اس کا اشارہ دیا تھا، تو اس پر بھی گوکھلے نے کہا کہ انھیں اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن نے نیشنل ہیرالڈ کو بتایا کہ گوکھلے اپنے اسی بیان پر قائم رہے جو انھوں نے پریس کانفرنس میں دیا تھا۔ البتہ گوکھلے نے بتایا کہ اس پورے معاملے میں ہندوستان کو اقوام متحدہ کے کئی اراکین ممالک کا تعاون اور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ دراصل گوکھلے صرف ابوظہبی میں ہوئے اسلامی مالک کی تنظیم میں وزیر خارجہ سشما سراج کی تقریر پر ہی بات کرنا چاہتے تھے۔

غور طلب ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے ہندوستان کو اپنی تقریب میں مدعو کیا۔ حالانکہ پاکستان نے اس دعوت نامہ کو خارج کرانے کی بھرپور کوششیں کیں اور احتجاج کے طور پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس میں حصہ بھی نہیں لیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کی اس میٹنگ سے کچھ خاص حاصل نہیں ہوا جو نصف گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی اور صرف 27 منٹ میں ختم ہو گئی۔ اس میٹنگ کی صدارت کانگریس رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر ششی تھرور نے کی۔ کمیٹی میں یوں تو 30 اراکین ہیں لیکن میٹنگ میں صرف 12 رکن ہی شامل ہوئے۔ ان میں بی جے پی کے رچرڈ ہئے، سوپن داس گپتا اور سنبھا جی راجے چھترپتی اور کانگریس کے جگدمبیکا اور پی بھٹاچاریہ شامل تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔