خاتون ریزرویشن بل منظور ہونے کے بعد لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں میں کیا تبدیلی واقع ہوگی؟

خاتون ریزرویشن بل یعنی 'ناری شکتی وندن ایکٹ' گزشتہ شب لوک سبھا سے منظور کر لیا گیا۔ جانیں کہ اس بل کے نافذ ہونے کے بعد لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی سیٹوں کا حساب کتاب کس طرح بدل جائے گا!

<div class="paragraphs"><p>خوشی کا اظہار کرتی ہوئیں خاتون ارکان پارلیمنٹ / یو این آئی</p></div>

خوشی کا اظہار کرتی ہوئیں خاتون ارکان پارلیمنٹ / یو این آئی

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں لوک سبھا کی کارروائی کے پہلے ہی دن مرکزی حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں مختص کرنے کا بل پیش کیا گیا۔ یہ بل مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے پیش کیا اور اسے 'ناری شکتی وندن ایکٹ' کا نام دیا گیا ہے۔

ناری شکتی وندن ایکٹ بل میں لوک سبھا اور اسمبلی کی کل نشستوں کا 33 فیصد خواتین کے لیے مختص کرنے کا انتظام ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی ہر تیسری رکن ایک خاتون ہوگی۔ آئیے جانتے ہیں کہ اس بل کے اہم نکات کیا ہیں اور اگر یہ منظور ہو جاتا ہے تو پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں کا حساب کتاب کتنا بدل جائے گا؟

ناری شکتی وندن ایکٹ بل کے اہم نکات

ناری شکتی وندن ایکٹ بل کی دفعات کے مطابق لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 181 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی۔ اس وقت صرف 82 خواتین ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ اس بل کو لانے کی واحد وجہ لوک سبھا اور اسمبلی میں خواتین کی شرکت کو بڑھانا ہے۔

بل پیش کرتے ہوئے مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے کہا کہ خواتین کے لیے ریزرویشن کی فراہمی 15 سال تک نافذ العمل ہوگی۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کا فیصلہ ہوگا کہ اس مدت میں توسیع کی جائے یا نہیں۔


اس بل کے تحت ایس سی-ایس ٹی زمرہ کی خواتین کے لیے علیحدہ ریزرویشن نہیں ہے لیکن ایس سی-ایس ٹی زمرہ کے لیے پہلے سے ریزرو سیٹوں میں سے 33 فیصد اب خواتین کے لیے ریزرو ہوں گی۔ اس وقت لوک سبھا میں 84 سیٹیں ایس سی اور 47 سیٹیں ایس ٹی کے لیے مختص ہیں لیکن اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو ایس سی کی 84 سیٹوں میں سے 28 سیٹیں ایس سی خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔ اسی طرح 47 ایس ٹی سیٹوں میں سے 16 سیٹیں خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔

خواتین ریزرویشن بل کے مطابق خواتین نہ صرف ان سیٹوں پر الیکشن لڑیں گی جو ان کے لیے مختص ہیں بلکہ وہ ان سیٹوں پر بھی الیکشن لڑ سکتی ہیں جو ان کے لیے مختص نہیں ہیں۔ اس بل میں او بی سی خواتین کے لیے علیحدہ ریزرویشن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ وہ صرف ان نشستوں پر الیکشن لڑ سکتی ہے جو یا تو غیر محفوظ ہیں یا او بی سی کے لیے مختص ہیں۔

اگر یہ ناری شکتی وندن ایکٹ قانون بن جاتا ہے تو یہ صرف لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں پر لاگو ہوگا۔ یہ بل راجیہ سبھا یا ریاستوں کی قانون ساز کونسلوں پر نافذ نہیں ہوگا۔

دہلی: اس بل میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 239اےاے کے مطابق خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن دینے کے بعد دہلی اسمبلی (کل 70 سیٹیں) میں خواتین کے لیے 23 سیٹیں ہوں گی۔

اتر پردیش: اتر پردیش میں اسمبلی کی 403 سیٹیں ہیں۔ ایسے میں اگر خواتین ریزرویشن بل پاس ہو کر قانون بن جاتا ہے تو یہاں 33 فیصد سیٹیں خواتین کے لیے ریزرو ہو جائیں گی اور 403 اسمبلی سیٹوں میں سے 132 سیٹیں خواتین کے لیے ریزرو ہو جائیں گی۔

بہار: 243 قانون ساز نشستوں والی ریاست بہار میں اس بل کی منظوری کے بعد خواتین کے لیے 81 نشستیں مختص ہو جائیں گی۔

ہریانہ: ہریانہ میں اسمبلی کی 90 سیٹیں ہیں اور اگر ناری شکتی وندن ایکٹ بل پاس ہو جاتا ہے تو ہریانہ میں خواتین کے لیے 30 سیٹیں محفوظ ہو جائیں گی، جس میں 90 اسمبلی سیٹیں ہیں۔


جھارکھنڈ: اس ریاست میں قانون سازی کی 82 نشستیں ہیں، جن میں سے 27 نشستیں ناری شکتی وندن ایکٹ بل-2023 کے تحت خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی۔

آندھرا پردیش: آندھرا پردیش میں اسمبلی کی 175 نشستیں ہیں اور ناری شکتی وندن ایکٹ بل 2023 کی منظوری کے بعد 58 خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی۔

اسی طرح اروناچل پردیش کی 60 میں سے 20 سیٹیں، آسام کی 126 میں سے 42 سیٹیں، چھتیس گڑھ کی 90 میں سے 30 سیٹیں، جموں و کشمیر کی اسمبلی کی 90 میں سے 30 سیٹیں خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی۔

پارلیمنٹ اور ملک کی بیشتر قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین ارکان کی تعداد 15 فیصد سے بھی کم ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 19 ریاستوں یعنی ہندوستان کی 19 اسمبلیوں میں خواتین ارکان کی شرکت 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق بہت سی ایسی اسمبلیاں ہیں جہاں خواتین کی شرکت 10 فیصد سے زیادہ ہے۔

ان اسمبلیوں میں خواتین کی شرکت 10 فیصد سے زیادہ ہے: بہار - 10.70 فیصد، چھتیس گڑھ 14.44 فیصد، ہریانہ - 10 فیصد، جھارکھنڈ 12.35 فیصد، پنجاب 11.11 فیصد، راجستھان 12 فیصد، اتراکھنڈ 11.43 فیصد، اتر پردیش 11.66 فیصد، مغربی بنگال 13 فیصد اور دہلی 13.17 فیصد۔ جبکہ گجرات (8.2 فیصد) اور ہماچل پردیش (ایک خاتون ایم ایل اے) میں خواتین کی شرکت 10 فیصد سے کم ہے۔

لوک سبھا کی بات کریں تو اس وقت 543 ممبران والی لوک سبھا میں خواتین کی تعداد صرف 78 ہے جو کل تعداد کا 15 فیصد بھی نہیں ہے۔ جبکہ راجیہ سبھا میں خواتین کی نمائندگی تقریباً 14 فیصد ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔