’ہم آبادی کو نہیں مٹا سکتے‘، آبادی کنٹرول قانون والی عرضی پر سماعت سے سپریم کورٹ نے کیا انکار

بی جے پی لیڈر اور مشہور وکیل اشونی اپادھیائے نے دلیل دی تھی کہ ’آبادی دھماکہ‘ کسی بم دھماکہ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور بغیر اثردار آبادی کنٹرول قانون کو نافذ کیے خوشحال ہندوستان کا تصور ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی اس عرضی کو خارج کر دیا ہے جس میں آبادی کنٹرول قانون کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اس عرضی پر سماعت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ معاملہ حکومت کے حلقہ اختیار میں ہے۔ ویسے بھی آبادی میں تو گراوٹ درج کی جا رہی ہے...۔‘‘ ساتھ ہی عدالت نے اس سلسلے میں لاء کمیشن کو بھی کسی طرح کی ہدایت دینے سے صاف طور پر منع کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے تبصروں کو دیکھتے ہوئے اشونی اپادھیائے نے عدالت سے اپنی عرضی کو واپس لے لیا۔

دراصل بی جے پی لیڈر اور مشہور وکیل اشونی اپادھیائے نے دلیل دی تھی کہ ’آبادی دھماکہ‘ کسی بم دھماکہ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور بغیر اثردار آبادی کنٹرول قانون کو نافذ کیے صحت مند ہندوستان، خواندہ ہندوستان، خوشحال ہندوستان، وسائل سے پُر ہندوستان اور بدعنوانی و جرائم سے پاک ہندوستان کی مہم کامیاب نہیں ہوگی۔ انھوں نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ ہندوستان کے پاس دنیا کی صرف 2 فیصد زمین ہے، جبکہ آبادی 20 فیصد ہے۔ حالانکہ اس عرضی کے جواب میں مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ ہندوستان میں مجموعی فرٹیلٹی ریٹ (ٹی ایف آر) میں لگاتار گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔


اس عرضی پر سپریم کورٹ میں جمعہ کے روز جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس اے ایس اوک کی بنچ نے سماعت کی۔ بنچ نے کہا کہ یہ موضوع پوری طرح سے حکومت کے حلقہ اختیار والا ہے اور یہ بھی کہا کہ ’آبادی گھٹ رہی ہے‘۔ جسٹس کول نے زبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آبادی میں گراوٹ آ رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ 10 یا 20 سالوں میں یہ استحکام کے نکتے تک پہنچ جائے۔ ہم آبادی نہیں مٹا سکتے۔ یہاں تک کہ لاء کمیشن کو بھی آخر کس طرح ہدایت دی جا سکتی ہے...۔‘‘

اس سے قبل اشونی اپادھیائے کی عرضی کے جواب میں مرکزی حکومت نے واضح کیا تھا کہ آبادی دھماکہ پر کنٹرول کے لیے وہ کسی شادی شدہ جوڑے کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتی کہ ’اتنے ہی بچے رکھنا ہے‘۔ حکومت نے کہا تھا کہ 2011-2001 کے درمیان ہندوستانیوں میں 100 سالوں میں شرح پیدائش میں سب سے زیادہ گراوٹ درج کی گئی تھی۔ حکومت نے بتایا تھا کہ ’’فیملی کی وسعت میاں-بیوی کو طے کرنا ہے۔‘‘ اپنے حلف نامہ میں مرکزی وزارت برائے صحت و خاندانی فلاح نے کہا تھا ’’ہندوستان میں خاندانی منصوبہ بندی پروگرام رویہ کے معاملے میں اختیاری ہے، جس کے تحت میاں-بیوی کسی رخنہ کے کنبہ کا سائز طے کرنے اور خاندانی منصوبہ بندی کے ان طریقوں کو اختیار کرنے میں اہل ہیں، جو ان کے لیے سب سے مناسب ہوں، ان کی پسند کے مطابق ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔