وقف ترمیمی قانون مذہبی خودمختاری پر حملہ اور آئینی حقوق کی پامالی ہے: ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) کی جانب سے سپریم کورٹ میں وکالت کرتے ہوئے کپل سبل نے وقف قانون کو غیر آئینی قرار دیا، چیف جسٹس نے بھی ’وقف بائی یوزر‘ برقرار رکھنے پر زبانی تبصرہ کیا

تصاویر: ارشد مدنی - پریس ریلیز / سپریم کورٹ - عدالت عظمیٰ کی سرکاری ویب سائٹ
نئی دہلی: مرکزی حکومت کے متنازع وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف دائر متعدد عرضیوں پر آج سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ ایک پریس بیان کے مطابق، جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی گروپ) کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل نے نہایت مدلل دلائل پیش کیے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ نئے ترمیمی قانون کے ذریعے حکومت ایک مذہبی معاملے میں براہ راست مداخلت کی مرتکب ہو رہی ہے، جو ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے اور مذہبی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے سماعت کے دوران زبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’وقف قرار دی گئی جائیدادوں اور ’وقف بائی یوزر‘ کی حیثیت برقرار رہے گی۔‘‘ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ چونکہ ان جائیدادوں کے تحفظ اور کردار کا معاملہ نہایت حساس ہے، اس لیے ترمیمی قانون کے اطلاق کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے عدالتی کارروائی پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی ابتدائی رائے حوصلہ افزا ہے اور ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلہ انصاف، آئین اور مذہبی آزادی کی سربلندی کا باعث بنے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’موجودہ وقف قانون نہ صرف ہمارے مذہبی حقوق پر حملہ ہے بلکہ ملک کی وحدت اور سالمیت کے لیے بھی خطرناک ہے۔‘‘
مولانا ارشد مدنی کے مطابق، وقف بائی یوزر کے خاتمے، وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت، اور کلکٹر کو فیصلے کا اختیار دینا جیسے نکات دراصل حکومت کی نیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ اصلاحات نہیں بلکہ دخل اندازی ہے اور ہم نے اسی بنیاد پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا‘‘۔
خیال رہے کہ عدالت نے سماعت کے آغاز میں دو اہم سوالات اٹھائے، پہلا، کیا یہ معاملہ پہلے ہائی کورٹ جانا چاہیے تھا؟ دوسرا، کیا پارلیمنٹ کو اس نوعیت کا قانون بنانے کا اختیار حاصل ہے؟ ان سوالات کے جواب میں کپل سبل نے دلیل دی کہ چونکہ معاملہ پورے ملک میں اثر انداز ہو رہا ہے اور اس میں بنیادی آئینی سوالات شامل ہیں، اس لیے سپریم کورٹ ہی اس کی واحد موزوں عدالت ہے۔
کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ وقف کا تعلق اسلامی عقیدہ اور روح سے ہے اور اسے کسی بھی طرح کی سرکاری نگرانی یا تحریف سے آزاد ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب دوسرے مذاہب کے اداروں میں مسلمانوں کو کوئی کردار نہیں، تو وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کی کیا تُک ہے؟‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی سخت اعتراض کیا کہ کلکٹر کو انصاف کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، حالانکہ وہ خود ہی ایک فریق ہو سکتا ہے۔ اس سے عدالتی غیر جانبداری کا بنیادی اصول مجروح ہوتا ہے۔
عدالت میں موجود سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کے استفسارات کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا، بالخصوص وقف بائی یوزر کی حیثیت کے بارے میں ان کی وضاحت غیر واضح رہی، جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا۔
کپِل سِبل نے کہا کہ ’’ماضی میں وقف کے لیے کوئی رجسٹریشن لازمی نہیں تھا۔ کئی مساجد اور اوقاف 13ویں، 14ویں یا 15ویں صدی سے موجود ہیں۔ اب حکومت ان کے کاغذات مانگ رہی ہے، جو سراسر غیر عملی ہے۔ اگر کوئی دستاویز پیش نہ کر سکا تو اس کی جائیداد چھن جائے گی، یا قابض ہی اس کا مالک بن جائے گا؟ یہ کیسا قانون ہے؟‘‘
عدالت نے فی الحال ترمیمات پر عمل آوری کو روک دیا ہے اور اگلی سماعت تک موجودہ حیثیت برقرار رکھنے کی زبانی ہدایت دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر عبوری حکم نہ دیا گیا تو وقف بائی یوزر کی حیثیت ختم ہونے کے دور رس اثرات ہوں گے۔
عدالت نے اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا کہ ملک کے کئی حصوں میں اس معاملے پر پرتشدد مظاہرے ہوئے، جو کہ افسوسناک ہے، اور قانون و امن کی صورتحال کو بگاڑنے والا ہے۔ تاہم سالیسٹر جنرل نے عدالت سے گزارش کی کہ فیصلے میں ان پرتشدد مظاہروں کو بنیاد نہ بنایا جائے۔ اس معاملہ پر سپریم کورٹ میں سماعت کل بھی جاری رہے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔