شیوراج حکومت کے ’ویاپم گھوٹالہ‘ نے لی 42ویں جان، خاتون ڈاکٹر کی موت

مدھیہ پردیش میں ’ویاپم‘ کا ہنگامہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔ اس گھوٹالے نے اپنا 42واں شکار کر لیا ہے اور اس بار جان گئی ہے لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھنے والی ایک ڈاکٹر کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ویاپم معاملہ میں منیشا شرما کو مدھیہ پردیش پولس کی ایس آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی دوا کے اوور ڈوز سے اس کی جان چلی گئی۔ منیشا شرما ڈاکٹر تھیں اور کے جی ایم یو میں ماسٹر آف سرجری کا کورس کر رہی تھیں۔ ان کے خلاف مبینہ طور پر ویاپم گھوٹالہ میں جانچ چل رہی تھی۔ لیکن پیر کی دوپہر ان کی موت واقع ہو گئی۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان کی موت بیہوشی کی دوا کا انجکشن لینے کی وجہ سے ہوئی۔

ویاپم گھوٹالہ منظر عام پر آنے کے بعد جب ایس آئی ٹی بنی تو اس نے 2015 میں جانچ کے دوران گوالیار سے منیشا کو گرفتار کیا تھا اور وہ چھ مہینے تک مدھیہ پردیش کی جیل میں تھیں۔ منیشا پر 09-2008 میں دو طالبات کے نام پر ویاپم کا امتحان دینے کا الزام تھا۔ کانپور باشندہ منیشا نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر منیشا شرما نے ہفتہ کی شب بدھا ہاسٹل میں بیہوشی کے انجکشن کا ہائی ڈوز لیا تھا۔ ڈاکٹر منیشا شرما نے پیر کے روز دوپہر ڈیڑھ بجے لکھنو میں علاج کے دوران دم توڑ دیا۔ ویاپم گھوٹالہ میں ضمانت ملنے کے بعد اس نے عدالت کے حکم پر کے جی ایم یو میں ایم ایس کورس میں 2015 میں داخلہ لیا تھا۔

ویاپم گھوٹالہ سب سے پہلے 2013 میں سامنے آیا تھا جس میں 1995 کی مدھیہ پردیش پروفیشنل اگزامنیشن بورڈ (ویاپم) کے امتحان میں داخلے اور بھرتی کو لے کر بڑے بڑے لوگوں کے خلاف الزام لگے۔ لیڈروں اور نوکرشاہوں سے لے کر کاروباریوں کے نام بھی اس گھوٹالے میں جڑے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ رہی کہ اس گھوٹالے میں جن کے نام آئے ان کی کسی نہ کسی طرح سے موت ہو گئی۔

پولس اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک اس معاملے میں 42 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ان اموات میں کچھ رسوخ دار لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا، ان میں سے ایک ہیں مدھیہ پردیش کے گورنر رام نریش یادو کے بیٹے شیلیش یادو۔ 25 مارچ 2015 کو شیلیش لکھنو کے مال ایونیو واقع اپنے والد کی سرکاری رہائش گاہ میں مردہ پائے گئے تھے۔ میڈیا کے ایک طبقہ اور کانگریس کے کچھ لیڈروں نے ویاپم گھوٹالہ کے ملزم شیلیش کی مشتبہ موت پر سوال بھی اٹھائے تھے۔

اب تک جن 42 لوگوں کی موت ہوئی ہے ان میں زیادہ تر بچولیے ہیں۔ بچولیوں کے قتل کے الزام لگتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بچولیوں کو اس لیے مارا گیا تاکہ اصل گنہگاروں تک قانون کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ کچھ ایسے لوگوں کی موت بھی ہوئی جو پیشے سے ڈاکٹر تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امتحان میں دھاندلی کر جن لوگوں کو ڈاکٹر کی ڈگری ملی انھیں راستے سے ہٹا دیا گیا تاکہ آگے چل کر امتحان میں بدعنوانی ظاہر نہ ہو سکے۔

4 جولائی 2014 کو نیتا جی سبھاش چندر بوس میڈیکل کالج کے ڈین ڈاکٹر ڈی کے سکالے نے اپنے گھر کے پیچھے خودکشی کر لی۔ اس موت کو بھی مشتبہ مانا جاتا ہے کیونکہ ان کا نام بھی ویاپم گھوٹالہ میں سامنے آیا تھا۔

28 جون 2015 کو ویٹنری افسر نریندر سنگھ تومر کی موت ہارٹ اٹیک سے ہو گئی۔ الزام تھا کہ وہ فرضی امتحان دہندگان کے لیے انتظامات کرتے تھے۔ تومر کی موت کو ان کے گھر والوں نے قتل قرار دیا تھا۔

4 جولائی 2015 کو ’آج تک‘ کے صحافی اکشے سنگھ کی بھی ہارٹ اٹیک سے موت ہو گئی۔ ان کے قتل کا بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا۔ اکشے ویاپم گھوٹالہ سے جڑی رپورٹ پر کام کر رہے تھے۔ جس دن ان کی موت ہوئی اس دن وہ ایک خاص اسائنمنٹ پر بھیجے گئے تھے۔

6 جولائی 2015 کو این ایس میڈیکل کالج، جبل پور کے ڈین اور جانچ کمیٹی کے سربراہ ارون شرما دہلی کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ ان کا نام بھی ویاپم گھوٹالہ میں اچھلا تھا، اس لیے ان کی موت کو بھی قتل قرار دیا گیا۔ 6 جولائی 2015 کو ٹرینی سب انسپکٹر انامیکا کشواہا کی لاش تالاب میں پائی گئی۔ ان کا نام بھی ویاپم گھوٹالہ میں سامنے آیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔