پانچویں مرحلے میں سال 2017 سے ووٹنگ فیصد کم ، تقریبا 57فیصدی ووٹنگ

بی جے پی یہ الیکشن بظاہر اچھی حکمرانی اور ترقیاتی ایجنڈےپر لڑرہی ہے لیکن آوارہ مویشیوں کے مسائل اور بے روزگاری کے ساتھ مہنگائی نے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کے پانچویں مرحلے کے تحت 12اضلاع کی 61سیٹوں پر ہونے والی ووٹنگ پرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوئی۔ اس مرحلے میں تقریبا 57فیصدی رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے امیدواروں کی انتخابی قسمت کو ای وی ایم میں قید کردیا۔واضح رہے یہ فیصد گزشتہ اسمبلی انتخابات سے کم ہے۔

سال 2017 کے انتخابات میں ان 61سیٹوں پر مجموعی ووٹنگ کا اوسط فیصد58.24فیصدی رہا تھا، جب ان 61سیٹوں میں سے 51سیٹوں پر بی جے پی نے جیت درج کی تھی اور اپنا دل کے کھاتے میں 2، ایس پی کے 5، کانگریس کو ایک سیٹ ملی تھی اور دو سیٹوں پر آزاد امیدواروں نے جیت کا پرچم لہرایا تھا لیکن اس مرتبہ بی جے پی اور ایس پی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔


الیکشن کمیشن سے موصول اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ ووٹنگ ضلع بارہ بنکی میں 66.94 فیصدی ہوئی ہے۔ سب سے کم ووٹنگ ضلع پر تاپ گڑھ میں52.56فیصدی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اضلاع میں امیٹھی میں55.86فیصد،اجودھیا میں59.49فیصد،بہرائچ میں57.07فیصد،گونڈہ میں 56.03فیصدی، کوشامبی میں59.56فیصد،پریاگ راج میں 53.77فیصد،رائے بریلی میں56.60فیصد، شراوستی میں57.24فیصد،سلطانپور میں56.42فیصد اور چترکوٹ میں 61.34فیصد رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔

الیکٹورل افسر نے بتایا کہ 2.25کروڑ ووٹر بشمول 1.20کروڑ مرد اور 1.05کروڑ خاتون رائے دہندگان ووٹنگ کے اہل تھے۔ جنہوں نے 693امیدواروں کی انتخابی قسمت کو ای وی ایم میں قید کردیا۔جن میں سے 90خاتون امیدوار بھی ہیں۔ کل 14030پولنگ اسٹیشنوں کے 25995پولنگ بوتھ پر ووٹ رائے دہندگان نے اپنی حق رائے دیہی کا استعمال کیا ۔اس مرحلے میں سب سے زیادہ 25امیدوار پرتاپ پور اسمبلی سیٹ پر ہیں جبکہ ملکی پور، پیاگ پور، بارہ بنکی، زید پور، حیدر گڑھ اور کادی پور میں سب سے کم 7۔7امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔


ضلع پریاگ راج سے موصول اطلاع کے مطابق کوراوں اسمبلی حلقے کے بھوگن گاوں کے رائے دہندگان نے علاقے میں کنال نہ ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا ہے۔کوراوں اسمبلی حلقے کے بھوگن گاوں کے لوگوں نے یہ کہتےہ وئے دوپہر تک اپنی حق رائے دیہی کا استعمال نہیں کیا کہ’پمپ کنال نہیں تو ووٹ نہیں‘۔بات میں ضلع حکام کے سمجھانے اور تیقن کے بعد وہ ووٹنگ کو تیار ہوگئے۔

ضلع پرتاپ گڑھ کے کنڈہ اسمبلی حلقے سے سماج وادی پارٹی(ایس پی)امیدوار گلشن یادو کی گاڑی پر اتوار کو پہاڑ پور گاوں کے پاس نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ریاست میں ہورہے پانچویں مرحلے کے الیکشن کے دوران کنڈہ سیٹ پر بھی آج ووٹنگ ہورہی ہے۔ یادو نے فون پر یواین آئی کو بتایا کہ ان کی گاڑی پر پتھراؤ کیا گیا۔ اس میں تین گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے اور ایک شخص کے سر میں چوٹ آئی ہے۔یادو نے الزام لگایا کہ اس معاملے میں جن ستا دل کے صدر اور کنڈہ سے الیکشن لڑرہے رگھوراج پرتاپ سنگھ کے اشارے پر کرایا گیا ہے۔


اس مرحلے میں یوگی کابینہ کے چھ وزراء بشمول نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کی قسمت داؤ پر ہے۔ یہ مرحلہ کانگریس اور کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی کے لئے بھی سخت امتحان ہے۔اس مرحلے کے انتخابات اس بات کو طے کریں گے کہ پرینکا گاندھی کا کتنا جادو چلا ہے کیونکہ رائے بریلی اور امیٹھی اضلاع کی اسمبلی حلقوں پر بھی انتخابات ہوئے ۔سیاسی ماہرین کے مطابق کانگریس اپنے اس پرانے قلعہ کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی بلکہ راہل گاندھی نے بھی انتخابی مہم کے آخری دن کانگریس کی تشہیری مہم میں شرکت کی اور اہل امیٹھی سے خطاب کر کے کانگریس کے لئے ووٹ مانگتے ہوئے امیٹھی سے اپنے تعلقات کو یاد کیا۔

شاہی خانوادے کے اراکین بھی اس مرحلے میں اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔ سابق وزیر و ایم پی سنجے سنگھ امیٹھی اسمبلی حلقے سے انتخابی میدان میں ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کبھی سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی کے قریبی سمجھے جانے والے سنجے سنگھ نے سال 2019 میں کانگریس سے استعفی دے دیا تھا اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔


سیاسی ماہرین کے مطابق بی جے پی کے لئے اس مرحلے میں اپنے قلعہ کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔پارٹی یہ الیکشن اچھی حکمرانی اور ترقیاتی ایجنڈےپر لڑرہی ہے لیکن آوارہ مویشیوں کے مسائل اور بے روزگاری کے ساتھ مہنگائی نے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ایس پی ان مسائل کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے اس لئے پارٹی سربراہ اکھلیش یادو کا ریلیوں سے خطاب انہیں مسائل کے اردگرد گھومتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔