تریپورہ اسمبلی انتخابات کے لئے ووٹنگ شروع، بی جے پی اور بائیں بازو-کانگریس کے درمیان سیدھا مقابلہ، سی اے اے بنا اہم موضوع

انتخابات میں 31 خواتین سمیت کل 259 امیدوار میدان میں ہیں۔ ریاست کے کل 28.13 لاکھ ووٹر 3,327 پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ جن میں سے 1100 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ٹوئٹر /<a href="https://twitter.com/ECISVEEP"><br>@ECISVEEP</a></p></div>

تصویر بشکریہ ٹوئٹر /
@ECISVEEP

user

قومی آوازبیورو

اگرتلہ: تریپورہ اسمبلی انتخابات کے لیے آج (16فروری 2023) تمام 60 سیٹوں پر ایک ساتھ پولنگ ہو رہی ہے۔ انتخابات کے لئے ایک ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی مہم منگل کو ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد آج صبح 7 بجے ریاست کے 8 اضلاع کے تمام 60 اسمبلی حلقوں میں سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان پولنگ شروع ہوئی، جو شام 4 بجے تک جاری رہے گی۔ ووٹوں کی گنتی 2 مارچ کو ہوگی۔ انتخابی عہدیداروں نے کہا کہ مرکزی مسلح پولیس فورس (سی اے پی ایف)، تریپورہ اسٹیٹ رائفلز (ٹی ایس آر) اور ریاستی پولیس نے تمام حلقوں میں پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔

تریپورہ کے چیف الیکٹورل آفیسر (سی ای او) گیتے کرن کمار دنکر راؤ نے ایک روز قبل کہا تھا کہ 16 فروری کو ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے کل 259 امیدوار میدان میں ہیں، جن میں 31 خواتین بھی شامل ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ ریاست کے 28.13 لاکھ ووٹر کل 3327 پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ پولنگ کے لیے کل 31 ہزار پولنگ اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 1100 کے قریب پولنگ اسٹیشن حساس قرار دئے گئے ہیں۔


ریاستی پولیس کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ وزارت داخلہ نے ریاست میں آزادانہ اور منصفانہ اسمبلی انتخابات کے لیے سی اے پی ایف کی 400 کمپنیاں (30000 سیکورٹی اہلکار) فراہم کی ہیں۔ عہدیدار نے بتایا کہ سی اے پی ایف کے علاوہ آسام رائفلز، بارڈر سیکورٹی فورس، سنٹرل ریزرو پولیس فورس، سنٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس، تقریباً 9000 ٹی ایس آر جوان اور 6000 تریپورہ پولیس کے اہلکاروں کو بھی انتخابات کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

تریپورہ کی 60 اسمبلی سیٹوں کے لیے کل 259 امیدوار میدان میں ہیں۔ اس بار بی جے پی اور آئی پی ایف ٹی اتحاد کے ساتھ الیکشن میں اترے ہیں۔ بی جے پی نے 55 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں، جبکہ آئی پی ایف ٹی 5 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ وہیں، اہم اپوزیشن لیفٹ اور کانگریس اتحاد سے بایاں محاذ 46 سیٹوں پر اور کانگریس 13 سیٹوں پر مقابلہ کر رہی ہے، جبکہ ایک سیٹ پر آزاد امیدوار کو حمایت دی گئی ہے۔ پردیوت بکرم کی نئی پارٹی ٹیپرا موتھا، جو پہلی بار الیکشن لڑ رہی ہے، نے 42 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ وہیں ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی 28 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ ان کے علاوہ 58 آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔


پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد، بی جے پی ایک بار پھر پی ایم مودی کے نام کے ساتھ انتخابی میدان میں ہے لیکن اس بار تریپورہ میں بی جے پی کی جیت آسان نہیں ہے۔ دراصل، 2018 میں بی جے پی نے تریپورہ میں بپلب دیب کی قیادت میں پہلی بار بائیں بازو کے قلعے کو گرا کر حکومت بنائی تھی لیکن چار سال بعد مئی 2022 میں بپلب دیب کو عہدے سے برطرف کر کے مانک ساہا کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔ بی جے پی اس بار مانک ساہا کی قیادت میں میدان میں ہے لیکن ریاست کی سیاسی مساوات پوری طرح بدل چکے ہیں۔ اس بار کانگریس اور بائیں بازو یکجا ہیں تو ٹی ایم سی اور ٹپرا موتھا پارٹی بھی الیکشن پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

تریپورہ میں قبائلی برادری کا ووٹ شیئر سب سے زیادہ ہے اور 32 فیصد قبائلی آبادی ہے۔ ریاست کی کل 60 سیٹوں میں سے 20 سیٹیں درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص ہیں، جبکہ باقی 40 سیٹیں غیر محفوظ ہیں۔ ریاست کی بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد ملتی ہے اور تقریباً 65 فیصد آبادی بنگالی بولنے والی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 8 فیصد مسلم آبادی ہے۔ ریاست میں فرقہ پرستی کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہی لیکن دو سال پہلے بنگلہ دیش میں درگا پنڈال میں تشدد کی آگ یقینی طور پر تریپورہ تک پہنچ گئی۔ پچھلی بار بی جے پی-آئی پی ایف ٹی اتحاد تمام 20 قبائلی ریزرو سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن اس بار صورتحال بدل گئی ہے۔


شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) تریپورہ انتخابات میں ایک اہم موضوع بن گیا ہے، جو بی جے پی کے لیے درد سر ثابت ہو سکتا ہے۔ تریپورہ قبائلی علاقہ جات خود مختار ضلع کونسل (ٹی ٹی اے اے ڈی سی) کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والی بااثر قبائلی ٹیپرا موتھا پارٹی نے کہا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کی صورت میں 150 دنوں کے اندر اسمبلی میں سی اے اے کے خلاف قرارداد منظور کرے گی۔ وہیں، حکمران بی جے پی کی حلیف ’انڈیجینس پیپلز فرنٹ آف تریپورہ (آئی پی ایف ٹی) بھی اندرخانہ سی اے اے کے خلاف ہے۔ جبکہ اپوزیشن کانگریس اور سی پی ایم ظاہری طور پر سی اے اے کے سخت خلاف ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔