بہار میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی پر تنازعہ، 86 فیصد فارم جمع، مگر شفافیت پر سوالات برقرار
بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی مہم میں اب تک 86.32 فیصد فارم جمع ہو چکے ہیں، مگر اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی شفافیت اور طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے

علامتی تصویر
بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی اور شدت کے ساتھ جاری نظرثانی مہم (اسپیشل انٹینسیو ریویژن– ایس آئی آر) کو لے کر تنازعہ لگاتار جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کل ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 89 لاکھ 69 ہزار 844 ہے، جن میں سے 6 کروڑ 81 لاکھ 67 ہزار 861 ووٹرز، یعنی 86.32 فیصد، نے فارم بھر کر جمع کرا دیے ہیں۔ اگر ان ووٹروں کو بھی شامل کر لیا جائے جو وفات پا چکے ہیں، مستقل طور پر دوسری جگہ منتقل ہو چکے ہیں یا ایک سے زیادہ مقامات پر رجسٹرڈ ہیں، تو فارم جمع کرانے کا مجموعی تناسب 90.84 فیصد ہو جاتا ہے۔
کمیشن نے ایک ریلیز میں بتایا کہ ریاست کے تمام 261 شہری بلدیاتی اداروں (یو ایل بیز) کے 5,683 وارڈوں میں خصوصی کیمپ لگائے گئے ہیں تاکہ رہ گئے ووٹرز کو فارم بھرنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔ ان کیمپس میں بوتھ لیول آفیسرز (بی ایل اوز) کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ ووٹرز کو آن لائن فارم بھرنے میں سہولت دی جا سکے۔ ساتھ ہی اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے بڑے پیمانے پر اشتہارات جاری کیے جا رہے ہیں تاکہ تمام شہریوں کو اس عمل میں شرکت کی ترغیب دی جا سکے۔
تاہم اس مہم پر اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید اعتراضات سامنے آ رہے ہیں۔ مختلف علاقوں میں ووٹرز سے مختلف دستاویزات طلب کیے جا رہے ہیں — کہیں آدھار نمبر ضروری قرار دیا گیا ہے تو کہیں پیدائش کا ثبوت، جبکہ کچھ علاقوں میں بغیر کسی اضافی دستاویز کے بھی فارم جمع کیے جا رہے ہیں۔ اس تضاد نے انتخابی شفافیت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
آندھرا پردیش کے سابق وزیراعلیٰ چندرابابو نائیڈو کی جماعت اور این ڈی اے کی اہم حلیف تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے بھی اس عمل پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مکتوب ارسال کیا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ انتخابات سے عین قبل ووٹر لسٹ کی وسیع نظرثانی مناسب اقدام نہیں ہے۔ پارٹی کے مطابق اس سے انتخابی توازن متاثر ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب کئی سول سوسائٹی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی جاری ہے ہیں اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عمل کے ذریعے بعض حلقوں میں جان بوجھ کر مخصوص کمیونٹیز کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن سے جواب طلب کیا ہے، تاہم اس عمل کو روکنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس معاملہ میں آئندہ سماعت 28 جولائی کو کی جائے گی۔
اب جبکہ اس عمل میں صرف 9.16 فیصد ووٹروں کے فارم باقی رہ گئے ہیں اور 10 دن کا وقت بھی باقی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ان اعتراضات کا شفاف طریقے سے جواب دے پائے گا اور 20 اگست کو متوقع ووٹر لسٹ شفاف اور قابل قبول ہوگی یا نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔