اس بار ’وام‘ نہیں ’رام‘ کو ووٹ دیجیے، لیفٹ حامیوں سے بی جے پی امیدواروں کی اپیل

بی جے پی امیدوار سندیپن وشواس کو حریف پارٹی ترنمول کانگریس کی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ بنگال میں بی جے پی نے بایاں محاذ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔

بی جے پی کارکنان، تصویر یو این آئی
بی جے پی کارکنان، تصویر یو این آئی
user

تنویر

مغربی بنگال میں سیاسی ماحول اس وقت پوری طرح سے گرم ہے۔ تین مرحلے کی پولنگ ہو چکی ہے اور بقیہ مرحلے کے لیے بی جے پی امیدواروں نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقات کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق شیام پُکور علاقہ میں کچھ عجیب ہی نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں بی جے پی لیڈران لیفٹ حامیوں کے گھر جا کر ان سے گزارش کر رہے ہیں کہ ’وام‘ (لیفٹ) کی جگہ ’رام‘ (بی جے پی) کو ووٹ دیں۔

ہندی نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو‘ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی لیڈروں کو جیسے ہی اس بات کی بھنک مل رہی ہے کہ فلاں شخص لیفٹ حامی ہے، تو فوراً پارٹی امیدوار کی قیادت میں کارکنان کی ٹیم گھر پہنچ جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی امیدوار نے بتایا کہ ایسا وہ دوستی بڑھانے کے لیے کر رہے ہیں۔ حالانکہ سیاسی فہم رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی بنگال میں جیت کے لیے ہر طرح کا حربہ اختیار کر رہی ہے اور لیفٹ حامیوں کے گھر جا کر بی جے پی کے لیے ووٹ کی اپیل کرنا بھی ایک حربہ ہی ہے۔


بہر حال، بی جے پی امیدوار سندیپن وشواس کو حریف پارٹی ترنمول کانگریس کی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ بنگال میں بی جے پی نے بایاں محاذ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی اسٹریٹجی بنائی ہے کہ مجھے کس طرح انتخاب لڑنا ہے۔ بی جے پی امیدوار لیفٹ حامیوں سے ملنے کے بعد کہتے ہیں ’’اس بار ’وام‘ نہیں بلکہ ’رام‘ کے نام پر ووٹ دیجیے۔ کیونکہ ترنمول کانگریس اقتدار سے ہٹ گئی تو لیفٹ ہی پھر سے حریف پارٹی بنے گی اور اس کے آگے کبھی نہ کبھی اقتدار میں بھی آ سکتی ہے۔‘‘

یہاں قابل ذکر ہے کہ کچھ دن قبل سندیپن وشواس علاقے کے سی پی آئی لیڈر کرونا سین گپتا سے بھی ملے تھے۔ جمعرات کو وہ سی پی ایم کے سینئر لیڈر اور سابق کونسلر سلل چٹرجی سے بھی ملے۔ ان ملاقاتوں نے مغربی بنگال میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ریاست میں اتھل پتھل کا ماحول کم ہونے کی جگہ آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔