ترنگے کے نام پرفساد: شرپسندوں کے منصوبہ کا حصہ!

سوال یہ ہے کہ کیا ترنگے کو بدنام کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے اور کیا یہ کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے؟کھیلم، سہارنپور اور اب کاس گنج میں ترنگے کے نام پر فساد پھیلانے کی سازش کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

کاس گنج: اتر پردیش میں یوگی کی قیادت والی بی جے پی حکومت میں پہلا فرقہ وارانہ فساد سہارنپور کے سڑک دودھلی گاؤں میں ہوا تھا۔ واقعہ کے دن بہت تیزی کے ساتھ یہ عام کیا گیا کہ مسلمانوں نے بابا صاحب امبیڈکر کی ’شوبھا یاترا ‘ پر پتھراؤ کر دیا ہے ۔ فساد کے دوران درجنوں دلت نوجوان شدید طور سے زخمی ہوگئے اورہنگامہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ یوگی حکومت کے دور میں اس پہلے فساد کو سازش رچنے والوں نے دلت بنام مسلم فساد کہہ کر عام کرنے کی کوشش کی ۔

جب سہارنپور میں دلتوں اور مسلمانوں کے بیچ کشیدگی بڑھنے لگی اور انتشار پھیلانے والی قوتیں قہقہے لگانے لگیں تو اسی وقت چندر شیکھر عرف راون نامی ایک دلت نوجوان منظر عام پر نمودار ہوا جس نے ’بھیم آرمی ‘ نامی ایک تنظیم کا قیام کیا اور اس نے ایک جھٹکے میں ہی فرقہ پرستوں کی ہنسی کافور کر دی۔ راون نے ایک ویڈیو جاری کیا اس وڈیو سے یہ بات منظر عام پرآگئی کہ یہ جھگڑا دلتوں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوا تھا ۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جھگڑا کن طبقوں کے بیچ تھا؟

فیصل خان کا کہنا ہے۔ ’’ ایک دن سہارنپور سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ راگھو لاکھن پال نے امبیڈکر کے نام پر یاترا نکالی، جس میں کثیر تعداد میں نوجوانوں بھگوا جھنڈے تھامے ہوئے تھے جبکہ صرف ایک دو کے پاس ہی ترنگے پرچم تھے۔ یہ تمام لوگ ہندو تنظیموں سے وابستہ تھے اور ان میں رکن پارلیمنٹ راگھو لاکھن پال کا بھائی بھی اس یاترا میں شامل تھا۔ یاترا کو جان بوجھ کر مسلمانوں کے محلے میں لے جایا گیا اور وہاں شرپسند عناصر نے قابل اعتراض نعرے لگائے۔ اس یاترا میں دلت نوجوان نہیں تھے بلکہ تمام نوجوان ہندو تنظیموں سے وابستہ تھے۔‘‘ قابل اعتراض نعرے بازی کے بعد وہاں دو فرقوں میں جھگڑا ہوا گیا ۔ شرپسند عناصر کے حوصلہ اس قدر بلند تھے کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ راگھو لاکھن پال کی قیادت میں انہوں نے سہارنپور کے اس وقت کے ایس ایس پی کی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا تھا۔

بشکریہ ہندوستان
بشکریہ ہندوستان
ہندی روزنامہ ہندوستان میں شائع خبر

سماجوادی پارٹی کے سہارنپورضلع کےصدر رُدرسین کے مطابق ’’اس یاترا کا واحد مقصد فساد پھیلانا تھا اور رکن پارلیمنٹ کا بھائی راہل خود اس کی قیادت کر رہا تھا۔‘‘ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ امبیڈکر کے نام پر جس دن یاترا نکالی جا رہی تھی ان کی جینتی ایک ہفتہ قبل ہی گزر چکی تھی۔ اس فساد کے پیچھے کی سازش کا پردہ فاش کرنے والے چندر شیکھر راون بھگوا گروہ کی آنکھ میں چبھنے لگے اور چند دنوں کے بعد ہی علاقہ میں ٹھاکر وں اوردلتوں کے بیچ ذاتیاتی جھگڑا شروع ہو گیا۔

کاس گنج فساد کے بعد بریلی کے ضلع مجسٹریٹ راگھویندر وکرم سنگھ نے فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کھیلم میں ترنگا یاترا کے دوران ہوئے تنازعہ کا ذکر کیا تھا جبکہ اب سہارنپور کی ایک دوسری افسر نے بھی اسی طرح کی پوسٹ فیس بک پر ڈالی ہےاور سڑک دودھلی میں ہوئے فساد کا تذکرہ کیا۔ کھیلم کے جس واقعہ کا ذکر بریلی کے ڈی ایم نے کیا وہ 22 جولائی کو پیش آیا تھا ، اس دن کافی تعداد میں ہندو تنظیموں سے وابستہ نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں میں بھگوا جھنڈے لئے نعرےبازی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقہ میں گھس گئے ۔ چشم دیدوں کے مطابق بھیڑ کی قیادت اتر پردیش حکومت کے ایک کابینی وزیر کا بھائی مان سنگھ چوہان کر رہا تھا۔ کھیلم میں اس وقت یہ خبر اڑائی گئی تھی کہ مسلمانوں نے کانوڑیوں (ہندو عقیدمندوں) پر حملہ کر دیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کشیدگی بڑھتی چلی گئی اور جھگڑے کے دوران درجنوں افراد زخمی ہو گئے جبکہ ایک شخص کی موت ہو گئی۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
فساد کے دوران موقع پر موجود سہارنپور کے ایس ایس پی

بریلی کے مختار عالم کہنا ہے کہ ’’بریلی ایک حساس ضلع ہے اور اس وقت کافی مشقت کے بعد معاملہ کو سنبھالا گیا۔ ڈی ایم کا کہنا صحیح ہےآخر یہ لوگ مسلم محلوں میں غلط نعرےبازی کرتے ہوئے گھستے ہی کیوں ہیں!‘‘

کاس گنج میں جو کچھ بھی ہوا وہ سبھی کے سامنے ہے۔ مظفر کے عبد الحق کا کہنا ہے ’’ یہاں سے ہر سال ہزاروں شیو بھکت کانوڑیے ہری دوار جاتے ہیں اور وہ وہاں سے جل لے کر آتے ہیں اور مسلمان ان کی عقیدت کا احترام کرتے ہیں۔‘‘

اب کانوڑ یاترا میں بھاری تعداد میں بھگوا اور ترنگے جھنڈے نظر آنے لگے ہیں اس بار تو ایک خصوصی کانوڑ بھی دیکھی گئی جس کا نام ’ترنگا کانوڑ‘ رکھ دیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ترنگے کو بدنام کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے اور کیا یہ کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے؟کھیلم، سہارنپور اور اب کاس گنج میں ترنگے کے نام پر فساد پھیلانے کی سازش کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔ سابق وزیر دیپک کمار کا کہنا ہے کہ ’’ پہلے فساد پھیلانے کے لئے مندر ۔مسجد میں کچھ قابل اعتراض چیز یں پھینک دی جاتی تھیں، جب لوگ اس سازش کو سمجھ گئے تو گائے کے نام پر تشدد پھیلایا گیا۔ اس میں بھی انہیں کامیابی نہیں ملی۔ لو جہاد اور چھیڑ خانی کے مدے پر بھی لوگ اب بیدار ہو چکے ہیں، تو اب یہ ترنگےکے نام پر وہی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Feb 2018, 2:50 PM