کرناٹک جیت سے کانگریس پُرجوش، اب ایم پی میں فتح کی تیاری

کرناٹک میں بی جے پی کے ہاتھ آئی ناکامی نے کانگریس میں ایم پی کا اقتدار حاصل کرنے کی آس پیدا کر دی ہے۔ پارٹی کے رہنما اور کارکنان زور شور کے ساتھ آئندہ ہونے جا رہے انتخابات کی تیاریوں میں جٹ گئے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آئی اے این ایس

مدھیہ پردیش میں آئندہ ہونے جا رہے اسمبلی انتخابات کے میدان میں اترنے سے قبل کانگریس ان تمام داؤ پیچ کو آزما رہی ہے جن کے دم پر وہ بی جے پی کا مقابلہ کر سکے۔ دریں اثنا کرناٹک میں بی جے پی کو اکثریت حاصل کرنے میں ملی ناکامی نے ایم پی کانگریس میں نیا جوش پیدا کر دیا ہے اور اقتدار میں آنے کی امیدیں بھی جگا دی ہیں۔

مدھیہ پردیش اسمبلی کی جومودہ صورت حال میں کانگریس بی جے پی سے کافی پیچھے ہے۔ کل 230 ارکان پر مشتمل اسمبلی میں بی جے پی کے 165 جبکہ کانگریس کے 57 ارکان اسمبلی ہیں۔ وہیں 29 ارکان پارلیمنٹ میں سے کانگریس کے 3 اور بی جے پی کے پاس 26 ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ ان حالات میں موجودہ بی جے پی کی حکومت کے خلاف بڑھ رہے عدم اطمینان سے کانگریس فائدہ اٹھانے کی فراق میں ہے۔

سیاسی تجزیہ کار ساجی تھامس کہتے ہیں، ’’صوبے میں ہونے والی اسمبلی انتخابات میں ابھی تقریباً 5 مہینے کا وقت ہے۔ بی جے پی لگاتار چناؤ جیت رہی ہے۔ فی الحال صوبے میں کسی کے حق میں یا خلاف ہوا نہیں ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ موجودہ حکومت کے کچھ فیصلوں سے لوگوں میں ناراضگی ہے۔ کانگریس کے لئے یہی سب سے بڑی بنیاد ہے جس کے دم پر وہ چناؤ جیتنے کا خواب دیکھ سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے کہاکہ کرناٹک میں بی جے پی کی کوششیں ناکام ہو جانے سے کانگریس پُر جوش ہے اور بی جے پی مایوس ہے۔ کانگریس کا جوش اور بی جے پی کی مایوسی کتنے دنوں تک رہ پاتی ہے یہ آنے والے دنوں پر منحصر ہے۔

کرناٹک میں بی جے پی کو حلف برداری کے بعد ملی شکست سے کانگریس میں کتنی خوشی ہے، اس بات کا اندازہ ایم پی کی تشہیرکاری مہم کمیٹی کے سربراہ جیوتیرادتیہ سندھیا کے ٹوئٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا، ’’اکثریت نہیں ہونے کے باوجود اقتدار کا غلط استعمال کر کے حکومت بنانے جا رہی بی جے پی کو کرناٹک میں منہ کی کھانی پڑی۔ آج جمہوریت کی جیت ہوئی ہے، جو آنے والے وقت لئے بہتر اشارہ ہے۔ ستیہ میو جیئتے،‘‘

اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما اجے سنگھ نے کہا، ’’کرناٹک میں جمہوریت کی جیت ہوئی ہے۔ بی جے پی کے پاس دولت اور اقتدار کی طاقت ہونے کے باوجود اس کی ہار ہوئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ نے گورنر کے عہدے کا استعمال کر کے کرناٹک میں غیر استحکام کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی، اس کے لئے انہیں عوام سے معافی مانگی چاہئے۔‘‘

وہیں، بی جے پی کے میڈیا انچارج لوکیندر پراشر کا کہنا ہے، ’’کرناٹک میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ آئینی نظام کے مطابق اسے حکومت سازی کی دعوت دی گئی۔ اکثریت نہیں تھی تو وزیر اعلیٰ یدی یورپا نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ دراصل کانگریس بے چینی کی صورت حال سے دو چارہے اور اس کا مقصد محض بی جے پی کو رکنا ہے۔ کرناٹک کا اثر مدھیہ پردیش پر نہیں ہونے والا اور بی جے پی ہی دوبارہ حکومت بنائے گی۔‘‘

سیاسی مبصرین پر یقین کریں تو کرناٹک میں بی جے پی اگر اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی تو یہ تصور کر لیا جاتا کہ مودی اور شاہ کی جوری کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس کا اثر مدھیہ پردیش، چھتیس گھڑ اور راجستھان کے انتخابات پر پڑ سکتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ کانگریس نے کرناٹ کے معاملہ میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے میں جو تیزی ظاہر کی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی اگر اسی طرح سے جارحانہ رویہ اختیار کئے رہے گی تو بی جے پی کے لئے سب کچھ آسان نہیں رہ پائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 May 2018, 1:35 PM