مسلم اقلیت کے بعد عیسائی اقلیت وی ایچ پی کے نشانے پر!

<p>کرسمس تقریب آرگنائز کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وی ایچ پی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کارکنان ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے اور بائبل کی کاپی و عیسیٰ مسیح کے پوسٹرس زمین پر پھینک دیے۔</p>

<p>تصویر نیشنل ہیرالڈ</p>

تصویر نیشنل ہیرالڈ

user

دھیریا ماہیشوری

ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کے لیے پابند عہد وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور اس سے منسلک تنظیموں نے مسلم اقلیت کے بعد عیسائی اقلیت کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اتر پردیش میں ہندو جاگرن منچ اور آر ایس ایس کے ذریعہ کرسمس تقریب کو متاثر کرنے کی خبریں تو آ رہی رہی تھیں اب راجستھان کے پرتاپ گڑھ میں بھی ہندو سخت گیر تنظیم وی ایچ پی اور اس کے حوارین نے کرسمس سے قبل منعقد کی جا رہی ایک تقریب میں توڑ پھوڑ مچائی اور شرکاء کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی۔

دراصل وی ایچ پی اور اس سے منسلک کارکنوں نے کرسمس تہوار منعقد کرنے کا منصوبہ بنانے والے راجستھان (ضلع پرتاپ گڑھ) کے ایک مقامی گروپ ’مسیح شکتی گروپ‘ کے ساتھ غنڈہ گردی کی اور اس طرح کی تقریب نہ منانے کی تلقین کی۔ ’مسیح شکتی سمیتی‘ کے صدر کارو لال نے اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ سے فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ ’’وی ایچ پی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے تقریباً 30 کارکنان منگل کی شب 9 بجے تقریب کے مقام پر پہنچے۔ انھوں نے تقریب کے شرکا ءکے ساتھ بدتمیزی کی۔ بدمعاشوں نے خواتین و بچوں کو بھی نہیں بخشا اور بائبل کی کاپی کے ساتھ ساتھ عیسیٰ مسیح کے پوسٹرس کو زمین پر پھینک دیا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’انھوں نے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا اور مسیح شکتی سمیتی کارکنان کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی۔‘‘

کارو لال نے اپنی بات چیت کے دوران تفصیل بتاتے ہوئے پولس پر بھی وی ایچ پی کارکنان کا دفاع کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ پولس سپرنٹنڈنٹ دفتر کے افسران کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ غنڈوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب وی ایچ پی کے غنڈے ہمارے مذہب کی بے عزتی کر رہے تھے اور آرگنائزر کی پٹائی کر رہے تھے تو پولس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔‘‘ کارو لال نے پولس کی کارروائی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’کرسمس تقریب کو متاثر کرنے والے وی ایچ پی کارکنان کو روکنے کی جگہ پولس نے ہمارےہی دو ٹیم ممبر رمیش مینا اور منیش میکوان کو حراست میں لے لیا۔ ان دونوں کو بدھ کی صبح کچھ گھنٹوں کی پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑا گیا۔‘‘

سیکورٹی سے متعلق سوال کیے جانے پر مسٹر لال نے کہا کہ گزشتہ مہینے پرتاپ گڑھ کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) کو پولس سیکورٹی کے لیے تحریری خط دیا گیا تھا اور ایس ڈی ایم نے بتایا تھا کہ خط پولس سپرنٹنڈنٹ کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ ’مسیح شکتی سمیتی‘ کے سکریٹری لکشمن مینا کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ آرگنائزرس نومبر سے ہی پولس سیکورٹی کے لیے کوشش کر رہے ہیں تاکہ تقریب کے انعقاد میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ انھوں نے کہا ’’پولس سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں ہری لال نامی پولس ملازم کے ہاتھ میں خط دے کر پولس سیکورٹی فراہم کرنے کی گزارش کی گئی تھی اور اس نے یقین دلایا تھا کہ تقریب کے انعقاد میں کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوگی۔ اس نے یہ بھی یقین دلایا تھا کہ پولس سیکورٹی دینے سے متعلق جوابی خط جلد ہی ہمارے پاس بھیجیں گے۔ لیکن انھوں نے ہمارے پاس کسی طرح کا تحریری جواب نہیں بھیجا۔‘‘ مینا نے ’قومی آواز‘ کو یہ بھی بتایا کہ تقریب سے ایک دن قبل یعنی 18 دسمبر بروز سوموار کو ہماری ٹیم پولس سیکورٹی کے لیے خط لے کر پولس اسٹیشن گئی اور پولس افسر منگی لال بشنوئی نے زبانی طور پر یقین دلایا کہ تقریب کے انعقاد میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

آرگنائزرس نے بینک آف بڑودا کی لوکل برانچ میں کام کرنے والے گوپال جی کے ساتھ ساتھ شبھم شانڈلیہ کو ملزم بنایا ہے۔ شبھم شانڈلیہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ منگل کی رات ہوئی غنڈہ گردی کی سربراہی کر رہا تھا۔ مسٹر مینا کا کہنا ہے کہ ان دونوں کا ہی تعلق وی ایچ پی سے ہے۔

کارو لال نے کرسمس تقریب سے متعلق بتایا کہ ’مسیح شکتی سمیتی‘ اس کا انعقاد گزشتہ سال سے کر رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’گزشتہ سال ہمیں مکمل پولس سیکورٹی ملی تھی اور کسی بھی طرح کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ گزشتہ سال کرسمس تقریب میں 500 سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی اور سب کچھ اچھے ماحول میں ہوا تھا۔‘‘ مسٹر لال نے مزید کہا کہ ’’اس مرتبہ 300 لوگوں نے تقریب میں شرکت کے لیے اپنا رجسٹریشن کرایا تھا۔‘‘

بہر حال، آرگنائزر گروپ نے بدھ کے روز ڈسٹرکٹ کلکٹر کے پاس شکایت کی عرضی داخل کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وی ایچ پی اور اس کی تنظیموں سے جڑے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے کرسمس تقریب کو متاثر کیا اور غنڈہ گردی کی۔ لیکن جمعرات کی شام تک کسی بھی طرح کی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔

پولس سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں موجود ایک پولس افسر شنکر لال نے ’قومی آواز‘ کو اس سلسلے میں بتایا کہ پولس اس پورے معاملے کی جانچ کر رہی۔ انھوں نے یقین دلایا کہ جانچ کے بعد قصورواروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔