وارانسی میں مندر کوریڈور، ’فرقہ پرستی‘ کی نئی تجربہ گاہ!

اس وقت بنارس ایسے آتش فشاں پر بیٹھا ہے جو اندر ہی اندر تیزی کے ساتھ سُلگ رہا ہے۔ فرقہ واریت کا یہ لاوا کبھی بھی پھوٹ سکتا ہے۔ اس فرقہ واریت کا پہلا شکار بنے گی گیان واپی مسجد۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی کے ووٹر اس بار موقع کے انتظار میں ہیں تاکہ وہ ’جملوں‘ کا صحیح طریقے سے جواب دے سکیں۔ گزشتہ بار ایس پی، بی ایس پی، یہاں تک کہ کانگریس کے کچھ روایتی ووٹروں نے بھی بی جے پی کا ساتھ دیا تھا، لیکن اس بار ان میں سے کئی یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ وہ اس بار موقع نہیں، دھوکہ دیں گے۔

اس کی وجہ بھی ہے۔ چیکھمبا، گودولیا، سرائے ہڑہا، رتھ یاترا اور لکسا کے پرشانت، ونود یادو، بنّے خاں، سشیل پانڈے اور یوگانت ایسے نوجوان ہیں جنھیں ڈگریاں ڈھوتے پانچ سال گزر گئے، لیکن ملازمت ان کے نصیب میں نہیں ہو سکی۔ ان کا ماننا ہے کہ مودی نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔ یہ بے روزگاروں کی فوج کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ وشوناتھ گلی کے گوپال، سڈیا کے نندن، کرن گھنٹہ کے کنچن چھوٹے کاروباری ہیں۔ ان کی آواز بھی اس بار بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ اس بار پچھلی بار کی طرح پارٹی کے حق میں کھل کر نعرے نہیں لگا سکیں گے۔

ترقی کے ایشو پر بھی کاشی اپنے انداز میں سوال داغ رہی ہے۔ پلوں، راستوں، سرکاری پانی کی ٹنکیوں، سرکاری عمارتوں اور گھاٹ، مندروں میں روشنی کے انتظامات کو ترقی ماننے والوں کی بھیڑ تو خوشی میں تالیاں پیٹ رہی ہے لیکن ایک بڑا طبقہ اسے کسی بھی طرح ترقی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس کا براہ راست الزام ہے کہ رنگ روغن سے پرانی چیزیں نئی نہیں ہو سکتیں اور ایسا کر کے حکومت عوام کو دھوکہ دے رہی ہے۔

حالانکہ کاشی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے معروف چہروں کو یہ پختہ یقین ہے کہ کوئی بھی آ جائے، مودی سے جیت پانا مشکل ہے۔ پھر بھی لوگ جس طرح علاقے کی ترقی کی حقیقی صورت حال پر بات کر رہے ہیں، وہ بی جے پی کے لیے الرٹ کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کے لیے پارٹی اور آر ایس ایس نے ابھی سے پوری طاقت جھونک دی ہے۔

بی جے پی-آر ایس ایس کے ساتھ ایک اور دقت ہے۔ وہ یہاں بھی کٹر ہندوتوادی راشٹرواد کا کارڈ کھیل رہی ہے۔ لیکن سابق نوکرشاہ اور مصنف اوم دھیرج کی یہ بات مناسب لگتی ہے کہ کاشی کی عوام مذہبی تو ہے، لیکن کاشی نے کبھی کٹرپسندی کو پسند نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ کاشی تنوع میں بھی اتحاد کے پرچم کو لے کر آگے بڑھنے والے شہر کی شکل میں دنیا کے سامنے کھڑی رہی ہے۔ اپنی اس شبیہ کو برقرار رکھنے کے عوض میں وہ کسی طرح کے سمجھوتے کے موڈ میں نہیں لگتی۔

ویسے، ان انتخابات میں کاشی وشوناتھ کوریڈور کی تعمیر ایک ایشو تو ہے ہی، اس کے سبب اجاڑ دیئے گئے ناراض لوگوں کی بھیڑ بھلے پرامن نظر آرہی ہو، لیکن ان کا غصہ ووٹ کی شکل میں اترنے کا اندیشہ بی جے پی کو بھی ہے۔ اسی طرح اس کوریڈور تعمیر کی وجہ سے مندر کے پاس کی گیان واپی مسجد کا ’غیر محفوظ‘ ہو جانا باعث فکر ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس بارے میں شہر کا کوئی اہم شخص بولنے کو تیار نہیں ہے، لیکن حال میں آئی نظم کی ایک کتاب نے اس پینڈورا باکس کو کھول دیا ہے۔ گزشتہ دنوں کاشی ہندو یونیورسٹی احاطہ میں اس کتاب کی رسم اجرا تقریب میں دانشوروں نے اسے جمہوریت کی للکار تک کہا۔

یہ کتاب ہے ’در بدر‘۔ رائٹر اجے مشر نے اس کے پیش لفظ کا عنوان دیا ہے ’سانسکرتک سنکٹ کی مہاگاتھا‘۔ اس میں ’اتیہاس کے پریت، ورتمان کا سنکٹ اور بھوشیہ کے سنکیت‘ عنوان کے تحت کوریڈور کی پوری داستان تفصیل سے درج کی گئی ہے۔ ’بھوشیہ کے سنکیت‘ یعنی مستقبل کے اشارے میں اجے مشر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا وشو ناتھ مندر زیارت کے لیے للتا گھاٹ سے مندر تک ساٹھ فیٹ چوڑا راستہ بنایا جانا دلائل پر مبنی اور سہولت کے مطابق ہے؟ دراصل اسی سوال میں چھپے ہیں مستقبل کے اشارے جس کا لوگ بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔

وشوناتھ کوریڈور کے لیے کی گئی انہدامی کارروائیوں سے متاثر لوگوں کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ بنارس ایسے آتش فشاں کے مہانے پر بیٹھا ہے جو اندر سے سلگ رہا ہے۔ فرقہ واریت کا یہ لاوا کبھی بھی پھوٹ سکتا ہے۔ تب اس کا پہلا شکار بنے گی گیان واپی مسجد۔ مشر لکھتے ہیں کہ دراصل مندر کوریڈور کے نام پر بنارس کو فرقہ وارانہ تشدد کی تجربہ گاہ کی شکل میں تیار کیا جا رہا ہے۔ کوریڈور کی وجہ سے پیدا مشکلات کے بارے میں مصنف نے اپنے بہانے تمام متاثرہ لوگوں کی بات کہنے کی کوشش کی۔ کتاب کی زیادہ تر نظمیں کوریڈور کی پریشانی سے جڑی ہوئی ہیں اور موجودہ وقت پر مرکوز ہیں۔

(ہمانشو اپادھیائے کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Apr 2019, 9:10 PM