بہت بڑا مسئلہ ہے شیوالک کی پہاڑیوں میں مقیم گوجروں کی ٹیکہ کاری

عبدالرحمن نامی وَن گوجر کا کہنا ہے کہ ’’وبا سے وَن گوجر کم ہی متاثر ہوئے ہیں، یہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، لیکن پھر بھی سبھی یہ انجکشن لگوائیں گے اور حکومت کی بات مانیں گے۔‘‘

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

شیوالک علاقہ کی پہاڑیوں میں بسے ہوئے ’وَن گوجر‘ (جنگل میں رہنے والے گوجر) طبقہ میں پسماندگی عروج پر ہے۔ یہاں لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ حالانکہ اتراکھنڈ علاقے میں آنے والی سڑک کے مشرق کی جانب (ایک دوسرا علاقہ جسے ’پتھری‘ کہتے ہیں) بچے وَن گوجروں کے لیے بنائے گئے خصوصی اسکول میں پڑھنے جانے لگے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ ایک سال سے وہ بالکل نہیں پڑھے۔ وَن گوجر بنیادی طور پر دودھ فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں اور اس وبا کے سبب وہ اپنا دودھ فروخت کرنے گاؤں نہیں جا پائے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انھیں راشن نہیں مل پایا۔ ان کے جانوروں کو ’کھل چوکر‘ نہیں ملی۔ دہرادون سڑک پر ہی رہنے والے 70 سالہ بزرگ ظہور احمد کہتے ہیں کہ ’’یہی بات سب سے مشکل ہے، بیماری نے اتنا پریشان نہیں کیا جتنا لاک ڈاؤن کیا۔ آپ ہمارے ڈیرے (جھونپڑیاں) دیکھیے۔ وہ دور دور ہیں۔ کچھ تو ایک کلو میٹر سے بھی زیادہ دوری پر ہیں۔ ہم بھیڑ سے الگ رہتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ دوری بنا کر رکھو۔ یہ بابا (وبا) ہے ہم جانتے ہیں، لیکن وَن گوجر جسمانی طور پر بہت مضبوط ہیں۔ ہم محنتی ہیں، ہمیں سب سے زیادہ پریشانی کھانے پینے کی ہوئی۔ کچھ گوجروں کو بخار ہوا تو وہ جنگل کی جڑی بوٹی سے ہی ٹھیک ہو گئے۔ ویکسین تو یہاں کوئی جانتا ہی نہیں، ہاں کورونا کا انجکشن کہتے ہیں، وہ لگوا لیں گے، اس میں کوئی دقت نہیں بلکہ اچھا ہی ہے۔ حکومت ہماری مدد کر رہی ہے۔ بس ایک التجا ہے کہ وہ ٹیم جنگلوں میں ہی بھیج دیں۔‘‘

بہت بڑا مسئلہ ہے شیوالک کی پہاڑیوں میں مقیم گوجروں کی ٹیکہ کاری

65 سالہ عبدالرحمن ایک طرح سے وَن گوجروں کے چودھری ہیں۔ ان کی صلاح پوری برادری مانتی ہے۔ بے حد نپے تلے اور تجربہ سے بھرے ہوئے عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حکومت کے قدم کا وہ استقبال کرتے ہیں اور ویکسین ضرور لگوائی جانی چاہیے۔ وَن گوجر طبقہ بھی آگے بڑھ کر اس میں تعاون کرے گا۔ کسی بھی وَن گوجر کو اس کورونا دور کرنے والے انجکشن سے کوئی ڈر نہیں ہے۔ وبا سے وَن گوجر کم ہی متاثر رہے ہیں، یہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، لیکن پھر بھی ہم سبھی یہ انجکشن لگوائیں گے اور حکومت کی بات مانیں گے۔


عبدالرحمن کورونا ویکسین سے کسی بھی خوف کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہماری برادری کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ مثلاً ہماری خواتین جنگل میں رہتی ہیں اور بیشتر کبھی بھی عام آبادی والے شہر نہیں گئی ہیں۔ بہت سے بزرگ اونچائیوں پر ہیں۔ حکومت کو ان کو ویکسین لگانے میں مشقت کرنی پڑ سکتی ہے اور اس کے لیے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔ ہم اس میں ڈاکٹروں اور محکمہ جنگلات کی ٹیم کا تعاون کریں گے۔‘‘

بہت بڑا مسئلہ ہے شیوالک کی پہاڑیوں میں مقیم گوجروں کی ٹیکہ کاری

اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی سرحدوں پر بسے ہوئے شیوالک رینج میں رہنے والے ہزاروں نوجوان وَن گوجر اس وقت زبردست گرمی کے سبب جنگل کے راستے اونچائیوں پر چلے گئے ہیں اور ڈیروں میں اب بزرگ اور خواتین ہی ہیں۔ عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ ویکسین تو اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن بچوں کے ٹیکے سے متعلق ماضی کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے کچھ زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ عبدالرحمن کی جانکاری کے مطابق ان کے موہند علاقے میں (دہرادون سڑک پر اتر پردیش-اتراکھنڈ سرحد سے ملحق جنگل) بخار سے کوئی موت نہیں ہوئی ہے، لیکن بخار بہت لوگوں کو ہوا، ان میں سے بیشتر نے جڑی بوٹی سے ہی علاج کر لیا اور کچھ نے گاؤں کے ڈاکٹر سے دوا لے لی۔


وَن گوجر ویکسین کو لے کر پراعتماد ہیں اور وہ اس کی صلاحیت کو لے کر کوئی شک نہیں کر رہے ہیں۔ ایک دیگر ڈیرے پر 42 سالہ بشیر کہتے ہیں کہ اگر حکومت یہاں جنگلوں میں ہی ڈاکٹر بھیج کر ٹیکہ لگوا دیں تو بہت اچھا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے بچوں کے بھی ٹیکے نہیں لگے ہیں۔ وہ ویکسین کا نام تو نہیں جانتے لیکن خبروں میں دیکھا ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہے وہ اسے ضرور لگوانا چاہتے ہیں۔ بشیر کہتے ہیں کہ یہ وقت بہت مشکلوں سے بھرا رہا ہے۔ مویشیوں کو لے کر بہت دقتیں سامنے آئی ہیں۔ یہاں چارہ پتّی اور کھل چوکر اچھی طرح مل پایا۔ اس سے انھوں نے وہ کمزور ہو گئی اور دودھ دینا بند کر دیا۔ وہ دعا کرتے ہیں کہ پوری دنیا سے یہ بیماری دور ہو جائے۔

بہت بڑا مسئلہ ہے شیوالک کی پہاڑیوں میں مقیم گوجروں کی ٹیکہ کاری

مقامی سماجی کارکن دیویندر ڈمپل دھیما بتاتے ہیں کہ سبھی وَن گوجر ویکسین لگوانا چاہتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر کچھ مسائل ہیں جنھیں حکومت اور وَن گوجروں دونوں کو مل کر دور کرنا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وَن گوجر ویکسین کے لیے آن لائن رجسٹریشن نہیں کر پائیں گے۔ پہلے تو ایک درجن ڈیروں میں بمشکل کسی ایک گوجر فیملی میں اسمارٹ فون ملے گا، نیٹورک کا بھی مسئلہ ہے۔ اس فون کا استعمال وہ تفریح کے لیے کرتے ہیں۔ کورونا ویکسین کے لیے رجسٹریشن کرنا ان کے لیے انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ وَن گوجر تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ویکسین لگ جائیں، اب یہ کیسے لگیں گی، اس کا طریقہ انھیں نہیں پتہ۔ دیویندر ڈمپل بتاتے ہیں کہ اس میں کئی طرح کی دقتیں ہیں۔ وَن گوجروں میں ایسی کئی خواتین ہیں جو کبھی جنگلوں سے باہر ہی نہیں نکلی ہیں۔ بہت سے گوجر خود کو شہری لوگوں کے درمیان اچھا محسوس نہیں کرتے۔ کچھ وَن گوجر اب اونچائیوں پر چلے گئے ہیں اور انھیں کس طرح بلایا جائے یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہاں رابطہ کرنا بہت بڑی پریشانی ہے۔ صرف ایک سرکاری کمپنی بی ایس این ایل کی رینج کبھی کبھی آ جاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ان سے ووٹ مانگنے تو آتے ہیں لیکن پھر وہ دکھائی نہیں پڑتے۔

بہت بڑا مسئلہ ہے شیوالک کی پہاڑیوں میں مقیم گوجروں کی ٹیکہ کاری

انچارج میڈیکل افسر پرائمری ہیلتھ سنٹر بہاری گڑھ، سہارنپور ڈاکٹر انوراگ تیاگی بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کی ٹیم کی پوری کوشش ہوگی کہ تمام دشواریوں کو دور کرتے ہوئے وَن گوجروں کی ٹیکہ کاری کرائی جائے۔ ہم بچوں کی ٹیکہ کاری مہم مشن اندردھنش کے طرز پر موبائل ٹیم بنا رہے ہیں۔ آشا بہن اور اے این ایم کی ٹیم بنائی گئی ہے۔ رجسٹریشن کی ضرورت تو 18 سے 44 سال کی عمر کے لوگوں کو ہے، فی الحال تو ہم اس سے زیادہ عمر والے سبھی وَن گوجروں کی ٹیکہ کاری کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ ہماری موبائل ٹیم کو ڈیروں میں جانے میں کوئی پریشانی آتی ہے تو ہم محکمہ جنگلات کے ملازمین کو بھی ٹیم میں شامل کریں گے۔

وَن گوجروں کے درمیان بیداری مہم چلانے والی گوجروں کی ہی واحد پڑھی لکھی بیٹی فریدہ بتاتے ہیں کہ وَن گوجر برادری ویکسین کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہے۔ وہ ٹیکہ کاری کو ’پولیا کے جیسا ٹیکہ‘ مانتے ہیں جس سے بخار نہیں ہوگا۔ فریدہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے خود اپنے والد کو ویکسین لگوا دی ہے۔ اس کے لیے وہ اسپتال گئی تھیں۔ لیکن سبھی لوگ اسپتال نہیں جا سکتے کیونکہ ان میں اتنی بیداری اور ہمت نہیں ہے۔ فریدہ بتاتی ہیں کہ وَن گوجروں میں شاید ان کے والد کو سب سے پہلے ویکسین لگی ہے۔ وہ برادری کے لوگوں کو ان کی مثال دیتی ہے۔ فریدہ کہتی ہے کہ وَن گوجروں کو پوری طرح سے ٹیکہ کاری کرنے کا سب سے اچھا طریقہ ان کے پاس پہنچ کر اس عمل کو انجام دینا ہے۔

بہت بڑا مسئلہ ہے شیوالک کی پہاڑیوں میں مقیم گوجروں کی ٹیکہ کاری

بہاری گڑھ کے فوریسٹ افسر منوج کمار بلودی اس ٹیکہ کاری مہم کی اہم کڑی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وَن گوجروں کے درمیان وہ اپنی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں، ہم وَن گوجر طبقہ سے سیدھے رابطے میں رہتے ہیں۔ ہم محکمہ صحت کی موبائل ٹیم کی مدد کریں گے۔ وہ جنگل میں بھٹک سکتے ہیں، اس لیے ہم انھیں ڈیروں پر لے جائیں گے۔ پہلے کی ٹیکہ کاری مہم میں بھی ہم نے ایسا کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وَن گوجر طبقہ ویکسین کی اہمیت جان رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔